
رپورٹس کے مطابق سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیئر نے اسرائیل کی غزہ پر جنگ کے بعد کے منصوبوں کی تیاری میں مدد کریں گے۔
ٹونی بلیئر 2003 میں امریکا کی قیادت میں عراق پر حملے اور قبضے کے دوران اقتدار میں تھے اور ملک کو ایک ایسی جنگ میں شامل کیا تھا جو بعد میں غلط اور جھوٹے دعووں پر مبنی نکلی اور جنہیں عرب دنیا اور برطانیہ میں بہت سے لوگ ’جنگی مجرم‘ تصور کرتے ہیں۔
امریکی اور مغربی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک 21 نکاتی منصوبہ بنایا ہے۔ اس منصوبے میں ٹونی بلیئر جیسے متنازع شخص کو عرب اور مسلم رہنماؤں کے سامنے اس طرح پیش کیا جا رہا ہے کہ اگر حماس کو غزہ سے نکال دیا جائے تو وہ تباہ حال غزہ کا اصل حکمران یا گورنر جنرل بن کر وہاں کے معاملات چلائیں گے۔
کچھ رپورٹس کے مطابق ٹونی بلیئر کا حتمی کردار ابھی طے نہیں ہوا، لیکن اس کے خدوخال واضح ہیں۔
یہاں ہم ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے پر نظر ڈالیں گے،ٹونی بلیئر کے ممکنہ کردار کے بارے میں جو کچھ اب تک معلوم ہے اس پر روشنی ڈالیں گے اور اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں۔

21 نکاتی منصوبہ کیا ہے؟
یہ 21 نکاتی منصوبہ دراصل ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم کی وہ نئی تجویز ہے جو غزہ پر جاری جنگ ختم کرنے کے لیے پیش کی گئی ہے۔ اس میں چند اہم نکات یہ ہیں:
قیدیوں کی رہائی:
- غزہ میں موجود تمام 48 اسرائیلی یرغمالیوں کو فوراً رہا کیا جائے۔ اس کے بدلے:
- انسانی امداد کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے۔
- جہاں پر اس وقت لڑائی یا فوجی مورچے قائم ہیں، انہیں وہیں روک دیا جائے۔
- اسرائیلی جیلوں میں موجود کچھ فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔
حماس کا کردار:
- حماس کو اپنے ہتھیار ڈالنے ہوں گے۔
- ایسے جنگجو جو پرتشدد کارروائی بند کرنے کا وعدہ کریں، انہیں عام معافی دی جائے گی۔
- اور جو ایسا وعدہ نہ کریں، انہیں غزہ چھوڑنا ہوگا۔
اہم بات یہ ہے کہ اس منصوبے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کسی فلسطینی کو زبردستی اپنی زمین سے بے دخل نہیں کیا جائے گا، اور اگر کوئی شخص اپنی مرضی سے جائے تو اسے بعد میں واپس آکر اپنے گھر میں رہنے کی اجازت ہوگی
منصوبہ سے بظاہر لگتا ہے کہ مستقبل میں ایک خودمختار فلسطینی ریاست تشکیل دی جانے کی بات ہوئی ہے، لیکن اسرائیل پہلے ہی بار بار اس کو مسترد کر چکا ہے۔
اگر یہ منصوبہ حقیقت میں نافذ ہوتا ہے تو یہ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ایک بڑے یو ٹرن کے مترادف ہوگا۔ فروری میں ٹرمپ نے دنیا کو اس وقت حیران کر دیا تھا جب انہوں نے کھلے عام نسل کشی کی حمایت کرتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا کہ امریکا غزہ کا کنٹرول سنبھال لے اور وہاں کے 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ہمیشہ کے لیے کسی اور ملک بھیج دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے تیار کردہ ویڈیو بھی جاری کی تھی جس میں انہوں نے اپنے تصور کردہ منصوبے کو ’غزہ ریویرا‘ کے طور پر دکھایا تھا۔
ٹرمپ کی نئی تجویز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ فلسطین کو ایک علیحدہ اور خودمختار ریاست بنانے کے لیے ایک حقیقی اور قابلِ اعتبار راستہ ہے۔ یہ اس لیے بھی بڑی پالیسی کی تبدیلی سمجھی جا رہی ہے کیونکہ ٹرمپ (جو ریپبلکن صدر ہیں) اب تک ہمیشہ دو ریاستی حل — یعنی ایک اسرائیلی ریاست اور ایک فلسطینی ریاست — کی حمایت کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ اس کے برعکس برطانیہ، فرانس اور کینیڈا جیسے کئی مغربی ممالک کھل کر اس حل کی حمایت کرتے آئے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنا بڑا منصوبہ نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران قطر، سعودی عرب، مصر، اردن، انڈونیشیا اور ترکیہ کے رہنماؤں کے سامنے پیش کیا۔
ٹونی بلیئر کا کردار کہاں ہے؟
سابق برطانوی وزیراعظم مبینہ طور پر اپنے ادارے ٹونی بلیئر انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل چینج کے ذریعے اس منصوبے میں شامل ہیں، جس کا دعویٰ ہے کہ وہ ’بہادر آئیڈیاز کو حقیقت میں بدلنا‘ چاہتا ہے۔
رپورٹس کے مطابق ٹرمپ کے منصوبے میں ٹونی بلیئر کو ایک نئے ادارے غزہ انٹرنیشنل ٹرانزیشنل اتھارٹی (گیتا) کا سربراہ مقرر کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ یہ ادارہ حماس کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد غزہ کا انتظام کرے گا اور یہ عبوری مدت کئی سال تک جاری رہ سکتی ہے۔
گیتا اقوامِ متحدہ سے اجازت (یواین مینڈیٹ) اجازت نامہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ غزہ کا انتظام قانونی طور پر کر سکے۔عرب ممالک نے بھی کہا ہے کہ یہ اجازت ضروری ہوگی۔ ابتدائی طور پر فلسطینی اتھارٹی کو انتظام میں شامل نہیں کیا جائے گا، کیونکہ اسرائیل نہیں چاہتا کہ مستقبل میں فلسطین اتھارٹی غزہ کی حکومت میں کردار ادا کرے۔
فلسطینی اتھارٹی کو کہا گیا ہے کہ وہ پہلے اپنی حکومت میں تبدیلیاں اور اصلاحات کرے، اپنا آئین (قانون) نئے حالات کے مطابق درست کرے اور نئے صدر اور پارلیمنٹ کے انتخابات کرائے۔ یہ سب کام اس سے پہلے ہونے چاہئیں کہ وہ غزہ کا انتظام سنبھالیں۔ اس دوران گیتا عبوری طور پر غزہ کا انتظام کرے گا اور وہاں کی تعمیر نو اور روزمرہ انتظامات کی ذمہ داری سنبھالے گا۔
ایک بین الاقوامی امن قائم رکھنے والی فورس بھی تعینات کی جائے گی، جو زیادہ تر عرب اور مسلم ممالک سے آئے گی، تاکہ غزہ میں سیکیورٹی فراہم کی جائے اور نئے فلسطینی سیکیورٹی فورس کو تربیت دی جائے۔
ٹونی بلیئر نے اس نئی تجویز پر ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ جنوری 2024 میں، جب اسرائیل کی چینل 12 نے رپورٹ دی کہ ٹونی بلیئر نے غزہ میں فلسطینیوں کی ’رضاکارانہ دوبارہ آباد کاری‘ کے منصوبے کے سلسلے میں وزیر اعظم نیتن یاہو اور سابق جنگی کابینہ کے وزیر بینی گینٹز سے ملاقات کی، تو ٹونی بلیئر کے ادارے نے اس رپورٹ کو جھوٹ قرار دیا۔

ٹونی بلیئر متنازع شخصیت کیوں ہیں؟
ٹونی بلیئر برطانیہ کے وزیرِاعظم رہ چکے ہیں اور 2003 میں عراق کی جنگ میں امریکا کی بھرپور حمایت کی، جس کے نتیجے میں سیکڑوں ہزاروں عراقی مارے گئے اور لاکھوں لوگ متاثر ہوئے۔ اس کی وجہ سے وہ عرب دنیا اور برطانیہ میں کئی لوگوں کے نزدیک ’جنگی مجرم‘ سمجھے جاتے ہیں۔
2007 میں بلیئر فوراً اقوامِ متحدہ، امریکا، یورپی یونین اور روس کے گروپ کے نمائندہ برائے مڈل ایسٹ کا عہدہ سنھبالا، جہاں ان کا کام فلسطینی اداروں کی تعمیر، معاشی ترقی، اور حکومتی و سیکیورٹی اصلاحات میں مدد کرنا تھا۔
وہ اس عہدے سے 2015 میں باضابطہ طور پر الگ ہو گئے، لیکن اپنے ادارے کے ذریعے اب بھی منصوبے چلا رہے ہیں۔

اگرچہ بلیئر کو اس خطے کا کچھ تجربہ حاصل ہے، لیکن زیادہ تر لوگوں کے لیے یہ تجربہ خوشگوار نہیں رہا، خاص طور پر عراق کی جنگ میں مارے گئے یا متاثر ہونے والے لاکھوں لوگوں کے لیے۔ اسی لیے اب بھی مشرقِ وسطیٰ اور برطانیہ میں بہت سے لوگ بلیئر کو ایک متنازع اور زہر آلود شخصیت سمجھتے ہیں۔
بلیئر برطانیہ کی سیاست میں بھی ایک متنازع شخصیت ہیں، کیونکہ عراق پر حملے کے بعد ان کی مقبولیت بہت کم ہو گئی تھی۔ ان کی غزہ کے مستقبل میں شمولیت کچھ تجزیہ کاروں میں حیرت اور شبہات پیدا کر رہی ہے۔
بلیئر کے علاوہ، 21 نکاتی منصوبے پر آن لائن اور کچھ میڈیا میں تنقید کی گئی ہے کہ یہ غزہ پر ایک نئی نوآبادیاتی قبضے جیسا منصوبہ ہے، جس میں مستقبل میں کسی اہل فلسطینی قیادت کو حکومت کرنے کی حقیقی ضمانت نہیں دی گئی۔
دوسری جانب اسرائیل کی طرف سے یہ واضح کیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی مستقبل کے منصوبے کے باوجود غزہ پر اپنی سیکیورٹی کنٹرول برقرار رکھے گا۔