
غزہ میں اسرائیلی جنگ کو دو سال مکمل ہوگئے ہیں۔ ان سالوں کے دوران اب تک 67,160 لوگ ہلاک اور 169,679 زخمی ہوچکے ہیں۔ جبکہ ہزاروں لوگ ملبے تلے دبے ہیں اور پوری آبادی بھوک کا شکار اور زبردستی بے گھر ہونے پر مجبور کیا جارہا ہے۔

ان دو سالوں میں فلسطینیوں کی عام زندگی جیسے ختم ہو گئی ہے، نہ کوئی گھر واپس جا سکا، نہ ان کے دوبارہ تعمیر ہوئے، اور نہ ہی اسرائیل کی بمباری رک سکی۔
غزہ کے لوگ پچھلے دو سالوں سے مایوسی میں جیتے آ رہے ہیں، ہر روز روٹی اور پانی کے لیے قطاروں میں لگتے ہیں۔ اب وہ صرف اس امید پر ہیں کہ شاید حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری مذاکرات کچھ اچھا نتیجہ لائیں اور یہ تباہی اور ’نسل کشی‘ ختم ہو سکے۔

اکتوبر 2023 میں غزہ پر اسرائیل کے حملے کے طور پر جو کچھ شروع ہوا تھا، وہ 2025 تک اقوامِ متحدہ کے ایک کمیشن کی جانب سے باضابطہ طور پر نسل کشی قرار دیا جا چکا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے خوراک، پانی اور ایندھن کی رکاوٹ نے 21ویں صدی کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کو جنم دیا ہے۔ اگست کے آخر میں اقوامِ متحدہ نے غزہ کے کچھ علاقوں میں باضابطہ طور پر قحط کا اعلان کیا، جس کی پیشگوئی مہینوں پہلے امدادی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کر چکی تھیں۔

جنیوا میں قائم تنظیم یورو-میڈ ہیومن رائٹس مانیٹر کے چیئرمین رامی عبدو کے مطابق اسرائیل کا محاصرہ خوراک اور پانی کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی پالیسی کی نمائندگی کرتا ہے۔
’غزہ میں قحط خطے میں ہونے والے باقی قحط سے مختلف ہے کیونکہ یہ کسی قدرتی آفت یا معاشی تباہی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا عمل ہے، بھوک کو شہریوں کو مارنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔‘

اسرائیل 2006 سے غزہ کی سرحدوں پر کنٹرول رکھے ہوئے ہے۔ جب 9 اکتوبر 2023 کو اسرائیل نے مکمل محاصرہ کا اعلان کیا، یعنی خوراک، پانی، ایندھن اور بجلی سب کچھ بند کر دیا، تو غزہ کا غذائی نظام فوراً تباہ ہو گیا۔
جب 2025 میں شہری اسرائیل کی قائم کردہ نام نہاد ’غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن‘ کے تقسیم مراکز تک پہنچنے کی کوشش کرتے، تو ان پر گولیاں چلائی جاتیں۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق 1,760 سے زائد فلسطینی صرف خوراک تک پہنچنے کی کوشش میں مارے جا چکے ہیں، جن میں سے تقریباً 1,000 ان ہی مراکز کے قریب ہلاک ہوئے۔
