
اس منصوبے سے عثمانی دور کا ایک اہم ریلوے روٹ بحال ہوگا جو تاجروں اور عازمین کو استنبول سے مکہ، مدینہ پہنچانے اور ان کے درمیان دیگر بڑے شہروں میں سفر کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
عثمانی دور کی تاریخی حجاز ریلوے اب دوبارہ پٹڑی پر چلے گی۔ ترکیہ، شام اور اردن نے اس تاریخی ریلوے لائن کو بحال کرنے اور جدید بنانے کا عزم کیا ہے۔
اس منصوبے سے عثمانی دور کا ایک اہم ریلوے روٹ بحال ہوگا جو تاجروں اور عازمین کو استنبول سے مکہ، مدینہ پہنچانے اور ان کے درمیان دیگر بڑے شہروں میں سفر کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
حکام اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے صرف ٹرینیں ہی دوبارہ نہیں چلیں گی بلکہ یہ معاشی بحالی اور خطے میں مفاہمت کے لیے بھی اہم ثابت ہوگا۔
اردن کے دارالحکومت عمان میں 11 ستمبر کو تینوں ملکوں کی ٹرانسپورٹ کی وزارتوں کا ایک اجلاس ہوا ہے جس میں تینوں ممالک نے اس ریلوے لائن کو بحال کرنے کی طرف 'پہلا عملی قدم' اٹھانے پر اتفاق کیا۔

ترکیہ کے وزیرِ ٹرانسپورٹ اور انفراسٹرکچر، عبدالقادر اورالوغلو نے کہا کہ انقرہ شام کو 30 کلومیٹر طویل گمشدہ پٹڑی کا انفراسٹرکچر دوبارہ بنانے میں مدد دے گا۔ جب کہ اردن اس پر کام کرے گا کہ کیا پرانے اور تاریخی ٹرین انجنوں کو مرمت کر کے دوبارہ چلایا جا سکتا ہے۔
انقرہ کی حاجی بیرام ولی یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کی ماہر ایسوسی ایٹ پروفیسر سوائے نلہان اچیقالن کہتی ہیں کہ حجاز ریلوے کا دوبارہ کھلنا صرف 'ایک طاقت ور تاریخی علامت ہی نہیں ہوگا بلکہ خوش حالی اور علاقائی تعاون کا ایک حقیقی محرک بھی ثابت ہوگا۔
انہوں نے 'ٹی آر ٹی ورلڈ' سے گفتگو کے دوران کہا کہ حجاز ریلوے کی بحالی اس خطے کے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔

مگر اس اگلی ملاقات سے قبل ترکیہ ایک تفصیلی ایکشن پلان تیار کرے گا جس میں سہ فریقی تکنیکی گروپوں کے لیے عملی اقدامات واضح کیے جائیں گے۔
لیکن حالیہ اجلاس کا ایک اہم اور فوری نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ترکیہ اور اردن کے درمیان شام کے راستے سے روڈ ٹرانسپورٹ دوبارہ شروع کرنے کا ایک معاہدہ طے پایا ہے جو 13 سال سے معطل تھا۔
ترک وزیر اُرالوغلو نے ترکیہ کو براہِ راست بحیرۂ احمر سے جوڑنے کی اسٹریٹجک اہمیت کی طرف بھی اشارہ کیا جو اردن کے عقبہ پورٹ کے ذریعے ممکن ہوگی۔ اس اقدام سے مشرقِ وسطیٰ اور اس سے آگے تک سپلائی چین کو مزید مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔
ماضی اور مستقبل کی پٹڑی
حجاز ریلوے کا افتتاح 1908 میں ہوا تھا۔ یہ ریلوے دراصل استنبول کو مدینہ سے جوڑنے کے لیے بنائی گئی تھی تاکہ اس روٹ پر تجارت اور حج و عمرہ کے زائرین دونوں کو سہولت دی جا سکے۔
ابتدا میں یہ ریلوے حاجیوں کو مقدس شہروں کے سفر پر لے جاتی اور صحراؤں و سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے دور دراز کی آبادیوں کو آپس میں جوڑتی تھی۔

لیکن پہلی جنگِ عظیم کے دوران اس کا زوال شروع ہوا جس کے بعد اس کی بیشتر پٹڑیاں برباد ہو گئیں۔ باقی ماندہ اسٹیشن اور انجن صرف تاریخی یادگاروں کے طور پر باقی رہ گئے۔
اب حکومتوں کی حمایت اور ماہرین کی مدد سے اس ریلوے کو ایک بار پھر زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک ایسے منصوبے کے طور پر جو ماضی اور مستقبل کو جوڑے گا۔

اگر یہ منصوبہ حقیقت کا روپ دھارتا ہے تو یہ نہ صرف تاریخ کا احیا ہوگا بلکہ خطے کے مستقبل کی نئی تشکیل بھی ہوگی۔ ایک ایسی ریلوے جو استنبول اسٹریٹ سے بحیرۂ احمر تک پھیلے گی اور جس کی بوگیوں میں تجارت، تعاون، امن اور خوشحالی سفر کریں گے۔