
میانمار کے روہنگیا اقلیتی مسلمان 2017 سے مظالم کا سامنا کر رہے ہیں اور لاکھوں افراد جبری بے دخلی کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ بنگلہ دیش میں اب بھی 12 لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین موجود ہیں۔
روہنگیا مسلمانوں نے اقوامِ متحدہ میں روہنگیا اقلیتوں کی حالتِ زار پر منعقد ہونے والے پہلے اعلیٰ سطحی اجلاس میں بین الاقوامی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ میانمار میں ہونے والی اجتماعی ہلاکتوں کو روکنے کے لیے اقدامات کرے اور اس مظلوم کمیونٹی کے افراد کو باعزت زندگی گزارنے میں مدد فراہم کرے۔
وائی وائی نو، جو روہنگیا نژاد اور ویمنز پیس نیٹ ورک میانمار کی بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں، نے جنرل اسمبلی ہال میں اقوامِ متحدہ کے 193 رکن ممالک کے وزرا اور سفیروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا یہ میانمار کے لیے ایک تاریخی موقع ہے لیکن یہ بہت دیر سے آیا ہے۔
وائی وائی نو کا کہنا تھا کہ میانمار میں روہنگیا اور دیگر اقلیتیں دہائیوں سے بے دخلی، تشدد اور مظالم کا شکار رہی ہیں۔ انہیں نسل کشی کا شکار تو قرار دیا گیا لیکن کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔ لیکن یہ چکر آج ہی ختم ہونا چاہیے۔

اگست 2017 میں روہنگیا مزاحمتی گروپ نے میانمار کے سکیورٹی اہلکاروں پر حملے کیے تھے جس کے بعد میانمار کی فوج نے روہنگیا اقلیتوں کے خلاف ایک وحشیانہ مہم شروع کی۔ جس کے نتیجے میں کم از کم سات لاکھ 40 ہزار روہنگیا افراد بنگلہ دیش ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ فوج پر اجتماعی زیادتیوں، قتلِ عام اور دیہات جلانے کے الزامات لگے۔ اس کارروائی کی شدت اور وسعت نے بین الاقوامی برادری بشمول اقوامِ متحدہ کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ میانمار کی فوج نسل کشی کی مرتکب ہوئی ہے۔
میانمار فروری 2021 سے تشدد کی لپیٹ میں ہے جب فوج نے سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور احتجاج کو طاقت سے کچلا گیا۔ اس اقدام نے ملک بھر میں مسلح مزاحمت کو جنم دیا۔ اب میانمار میں جمہوریت کے حامی گوریلا گروپس اور نسلی اقلیتوں کی مسلح تنظیمیں فوجی حکمرانوں کو ہٹانے کے لیے لڑ رہی ہیں۔ اس لڑائی کا دائرہ مغربی ریاست رخائن تک بھی پھیلا ہوا ہے جہاں اب بھی ہزاروں روہنگیا رہائش پذیر ہیں جن میں سے اکثر سخت پابندیوں کے تحت کیمپوں میں قید ہیں۔
امریکہ نے 2022 میں کہا تھا کہ میانمار کی فوج کے اہلکار روہنگیا کے خلاف کارروائیوں میں انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

آراکن آرمی رخائن نسلی اقلیت کا ایک طاقت ور مسلح ونگ ہے جو خود مختاری چاہتی ہے۔ گرانڈی کے مطابق یہ آرمی اب تقریباً پوری رخائن ریاست پر قابض ہے اور وہاں روہنگیا کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔
انہوں نے کہا کہ روہنگیا اب بھی امتیازی سلوک، دیہات جلائے جانے، روزگار سے محرومی، آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی، محدود تعلیم اور صحت کی ناکافی سہولتوں اور گرفتاری کے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔ گرانڈی کے بقول 'انہیں جبری مشقت اور زبردستی بھرتی کا شکار بنایا جاتا ہے اور ان کی زندگی ہر روز نسل پرستی اور خوف کے سائے میں گزرتی ہے۔'

حکومت انتخابات کی تیاری کر رہی ہے جو دسمبر میں ہونے ہیں۔ لیکن اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے امور کے سربراہ فولکر ترک کہتے ہیں کہ یہ انتخابات عوامی امنگوں کی عکاسی نہیں کریں گے اور نہ ہی پائیدار امن کی بنیاد رکھیں گے۔ انتخابات فوجی کنٹرول میں ہوں گے جس میں روہنگیا ووٹ نہیں ڈال سکیں گے کیوں کہ ان سے شہریت چھین لی گئی ہے اور نسلی رخائن جماعتوں کو انتخاب لڑنے سے نااہل قرار دیا جا چکا ہے۔
اقوام متحدہ کے اس اجلاس کی صدارت جنرل اسمبلی کی صدر انالینا بربوک کر رہی تھیں۔ انہوں نے اس اجلاس کے اختتام پر کہا کہ 'آج اس کی شروعات ہے، ہمیں مزید کام کرنا ہوگا۔' انہوں نے وعدہ کیا کہ روہنگیا کے مسئلے پر اقدامات کیے جائیں گے اور ان کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔