
غزہ پر دو سال سے ہونے والی بمباری کے دوران اسرائیل کے جنگی مقاصد نہ ہونے کے برابر حاصل کیے۔ 7 اکتوبر کے حملے کے بعد اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے غزہ میں جنگ کے دو بنیادی مقاصد طے کیے تھے: پہلا: اسرائیل سے لے جائے گئے تمام یرغمالیوں کی بازیابی اور دوسرا: حماس کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے۔
دو سال گزرنے کے باوجود وہ دونوں میں سے کوئی بھی مقصد مکمل طور پر حاصل نہیں کر سکے۔
غزہ لے جائے گئے 251 یرغمالیوں میں سے 148 کو زندہ واپس لایا جا چکا ہے۔ ان میں سے 8 کو اسرائیلی فوج نے بازیاب کرایا، جب کہ باقی 140 کو حماس نے اسرائیل میں قید سیکڑوں فلسطینیوں کے بدلے میں رہا کیا۔ کئی ہلاک شدہ یرغمالیوں کی لاشیں بھی اسرائیل کے حوالے کی گئی ہیں۔
اسرائیلی حکومت کے مطابق اب بھی 48 یرغمالی حماس کے قبضے میں ہیں، جن میں سے صرف 20 کے زندہ ہونے کا خیال ہے۔
حماس اب بھی غزہ میں موجود ہے، اگرچہ گزشتہ دو برسوں میں اس کے کئی جنگجو مارے جا چکے ہیں۔
اسرائیل نے حماس کے کئی سینئر رہنماؤں کو بھی ہلاک کیا ہے، جن میں اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ سنوار شامل ہیں۔ اس کے باوجود تنظیم اب بھی متحرک ہے۔
ستمبر 2025 کے آخر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے لیے 20 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا، جس میں تمام باقی یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کے غیر مسلح ہونے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
منصوبے کے مطابق حماس کے جو ارکان ہتھیار ڈال دیں گے انہیں معافی دی جائے گی اور جو غزہ چھوڑ کر کہیں اور جانا چاہیں انہیں جانے دیا جائے گا۔ غزہ میں سب سرنگیں اور ہتھیار بنانے والی فیکٹریاں تباہ کر دی جائیں گی۔ ہتھیاروں کو ہمیشہ کے لیے ناکارہ بنا دیا جائے گا۔ یعنی دوسرے لفظوں میں یہ سمجھ لیں کہ حماس غزہ سے مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔
کیا اسرائیل کے دشمن کمزور ہوگئے ہیں؟
گزشتہ دو برسوں میں لڑائی صرف غزہ تک محدود نہیں رہی۔ لبنان میں حزب اللہ اور یمن کے حوثیوں نے بھی جنگ کے آغاز پر حماس کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا تھا۔ یہ تینوں تنظیمیں — حزب اللہ، حوثی اور حماس، مبینہ طور پر ایران سے مالی اور عسکری مدد حاصل کرتی ہیں۔
7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد، 2024 اور 2025 میں حزب اللہ نے بھی اسرائیل پر متعدد حملے کیے۔حوثی جنگجوؤں نے بھی کئی بار اسرائیل کو راکٹوں اور ڈرونز سے نشانہ بنایا۔اسرائیل نے ان تمام تنظیموں کے خلاف فوجی کارروائیاں کیں۔
بیروت میں دھماکے کے ذریعے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو ہلاک کیا گیا، جب کہ ستمبر 2024 میں ایک کارروائی کے دوران دھماکہ خیز برقی آلات کے ذریعے متعدد حزب اللہ جنگجو مارے گئے، جس نے عالمی توجہ حاصل کی۔ جنوبی لبنان پر اسرائیلی فضائی حملوں نے حزب اللہ کو مزید کمزور کر دیا۔
اسرائیلی فضائیہ نے ایران پر بھی کئی دنوں تک حملے کیے، جن میں ایرانی جوہری تنصیبات کو شدید نقصان پہنچا۔ اسی دوران تہران کے مرکزی علاقے میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کا بھی قتل کیا گیا۔
یوں ایران، شام، لبنان اور غزہ میں اسرائیل کے مخالفین کو سخت نقصان پہنچا اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نیتن یاہو کے ساتھ بھرپور حمایت کی وجہ سے خطے میں اسرائیل کی عسکری برتری پہلے سے کہیں زیادہ مستحکم ہو گئی۔

اسرائیل پر نسل کشی کے الزامات
رواں سال یورپی ممالک نے اسرائیل پر شدید تنقید اور غزپ پر جنگ اور نسل کشی کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔
گزشتہ دو برسوں میں اسرائیلی فوج نے غزہ کے اسپتالوں، پناہ گزین کیمپوں اور اسکولوں پر بمباری کی، جس کے نتیجے میں ہزاروں خواتین اور بچے ہلاک ہوئے۔
ان کے ساتھ ساتھ درجنوں صحافی، ریسکیو ورکرز اور امدادی کارکن بھی ہلاک ہوئے۔متعدد مواقع پر اسرائیل نے جان بوجھ کر غزہ کے عام شہریوں کے لیے بھیجی جانے والی امداد کو روک دیا۔ اسرائیلی حکام کا مؤقف تھا کہ اس امداد کو حماس کے ہاتھوں میں جانے سے روکنا ضروری ہے۔ان اقدامات کے نتیجے میں اسرائیلی حکومت پر فلسطینیوں کی نسل کشی کے الزامات عائد کیے گئے۔
اقوام متحدہ کے ایک آزاد انسانی حقوق کمیشن، انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف جینو سائیڈ اسکالرز اور اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی کہا ہے کہ اسرائیل نسل کشی میں ملوث ہے۔نیتن یاہو کی حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ اس کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں اور اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
دسمبر 2023 میں جنوبی افریقہ نے اقوام متحدہ کے جینو سائیڈ کنونشن کی خلاف ورزی کے الزام میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں دائر کیا تھا۔
نومبر 2024 میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے نیتن یاہو اور اُس وقت کے وزیرِ دفاع یوآو گالانت کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے۔اسرائیلی حکومت اور اس کے حامیوں نے ان وارنٹس کو مسترد کیا، جبکہ ہنگری نے بعد ازاں آئی سی سی سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔
فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان
غزہ میں سنگین حالات نے ایک آزاد فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کی کوششوں کو تقویت دی ہے۔
7 اکتوبر 2023 سے قبل دنیا کے تقریباً 140 ممالک نے فلسطین کو تسلیم کیا تھا۔ دو سال بعد، مزید 20 ممالک نے باضابطہ طور پر فلسطین کو تسلیم کیا ہے، جن میں فرانس، برطانیہ، اسپین، آسٹریلیا اور کینیڈا شامل ہیں۔
ان ممالک نے اس اقدام کے ذریعے دو ریاستی حل کی حمایت کا اظہار کیا ہے: یعنی اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست۔
نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ فلسطینی ریاست کی پہچان حماس کو ’انعام‘ دینے کے برابر ہوگا۔ تاہم جن حکومتوں نے فلسطین کو تسلیم کیا ہے، انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ حماس فلسطینی ریاست میں کوئی کردار نہیں ادا کرے گا۔ مستقل جنگ کے ردعمل میں کئی ممالک نے اسرائیل کو ہتھیار کی برآمدات روک دی ہیں۔ کولمبیا، جنوبی افریقہ اور ملائیشیا سمیت کئی ممالک نے اسرائیل پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ یورپی یونین بھی اقتصادی پابندیوں کے نفاذ پر غور کر رہی ہے۔
زیادہ تر رکن ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات محدود کرنے، یورپی یونین کے لیے اسرائیلی شہریوں کے ویزا فری سفر کو معطل کرنے اور مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی درآمدات کو بلاک کرنے کی حمایت کی ہے۔ تاہم جرمنی اور کچھ دیگر یورپی یونین رکن ممالک نے اب تک ان اقدامات کی حمایت نہیں کی۔