
بنگلہ دیش میں کچھ علاقوں میں اکثر سیلاب آتے رہتے ہیں۔ جب سیلاب آتا ہے تو سڑکیں، دیہات سب پانی میں ڈوب جاتے ہیں اور لوگ گھروں میں قید ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہاں بچوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
یہ پانی پر تیرتے ہوئے اسکولوں کی وجہ سے ممکن ہو رہا ہے جن میں زیرِ تعلیم بچے سیلاب میں بھی اپنی کلاسز جاری رکھ پاتے ہیں۔
انہیں طلبہ میں سے ایک 10 سالہ تکافل اسلام بھی ہیں۔ ہر صبح وہ سیلابی پانی میں ڈوبے اپنے گاؤں بھانورگا کے باہر کھڑے ہو کر اپنے اسکول کا انتظار کرتے ہیں۔ کیوں کہ انہیں اسکول وین نہیں بلکہ پورا اسکول ہی لینے آتا ہے اور وہ بھی تیرتا ہوا۔

یہ پراجیکٹ 2002 میں ایک آرکیٹیکٹ محمد رضوان نے صرف 500 ڈالرز کی رقم سے شروع کیا تھا۔ یہ رقم انہیں اپنی اسکالر شپ کے لیے ملی تھی۔ ان کا یہ پراجیکٹ اتنا کامیاب ہوا کہ ملکی گیر سطح پر پھیل گیا اور اب ایک غیر منافع بخش تنظیم 'شدھولائی سوانیوار سنگستھا' اس ماڈل کے تحت کئی تیرتے اسکول چلا رہی ہے۔
بنگلہ دیش میں 100 سے زیادہ کشتیوں میں اسکول، لائبریریاں اور کلینکس قائم ہیں۔ یہ پروجیکٹ 22000 طلبہ کو تعلیم دے چکا ہے اور رواں سال اسے اقوامِ متحدہ کے ادارے 'یونیسکو' کی طرف سے 'کنفیوشس پرائز فور لٹریسی' بھی دیا گیا ہے۔

اسکول بوٹس مقامی درختوں کی لکڑی سے ہی بنائی گئی ہیں۔ ان میں کرسیاں اور بینچز ہیں، بلیک بورڈ اور بک شیلف بھی۔ سولر پینلز سے ان کشتیوں میں بجلی کا انتظام کیا گیا ہے اور کمپیوٹر کی سہولت بھی موجود ہے۔
پراجیکٹ چلانے والی تنظیم کے مطابق 'ابھی ہمارے 26 کشتی اسکولوں میں 2240 طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ 22500 سے زیادہ بچے تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور شدید سیلاب کے دوران یہ کشتیاں بے گھر خاندانوں کے لیے پناہ گاہ بھی بنتی ہیں۔'
بنگلہ دیش کے دیگر ویٹ لینڈز میں دیگر این جی اوز بھی اسی ماڈل کو اپنا رہی ہیں۔

تکافل اسلام کی والدہ صوفیہ خاتون نے کہا کہ ہمیں کبھی پڑھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ لیکن یہ کشتیاں ہمارے بچوں کو اچھے مستقبل کا خواب دکھا رہی ہیں۔
بوٹ اسکول کی ایک ٹیچر سکینہ خاتون کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں اس پراجیکٹ سے متاثر ہو کر اب نائیجیریا، کمبوڈیا اور فلپائن میں بھی اسی طرح کے تیرتے اسکول شروع ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان اسکولوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ کبھی بند نہیں ہوتے۔ سیلاب میں بھی نہیں۔
اس پراجیکٹ کے بانی رضوان نے کہا کہ 'میرے پاس زندگی میں کبھی زیادہ چیزیں نہیں تھیں اسی طرح ان بچوں کے پاس بھی کچھ نہیں ہے۔ لیکن انہیں تعلیم اور صحت تک رسائی دینا اور اپنے اس پراجیکٹ کو دنیا کے دیگر حصوں میں بھی پھیلتے دینا میری حوصلہ افزائی کرتا ہے۔