غزہ میں امن کے لیے ٹرمپ اور نیتن یاہو کے 20 نکاتی منصوبے میں کیا کہا گیا ہے؟

10:1330/09/2025, منگل
جنرل30/09/2025, منگل
ویب ڈیسک
فائل فوٹو
فائل فوٹو

ٹرمپ اور نیتن یاہو نے حماس کو تنبیہ کی ہے کہ وہ بھی اس منصوبے کو قبول کرے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیرِ اعظم کے درمیان غزہ کے لیے ایک امن منصوبے پر اتفاق ہو گیا ہے اور اب اس 20 نکاتی منصوبے کو حماس کی لیڈرشپ کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو نے حماس کو تنبیہ کی ہے کہ وہ بھی اس منصوبے کو قبول کرے۔ اس منصوبے میں کیا کہا گیا ہے؟ آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

  1. غزہ کو ایک ایسا علاقہ بنایا جائے گا جو انتہا پسندی اور دہشت گردی سے پاک ہو اور اپنے پڑوسیوں کے لیے خطرہ نہ بنے۔
  2. غزہ کی دوبارہ تعمیر کی جائے گی تاکہ وہاں کے عوام کو فائدہ پہنچے جنہوں نے بہت تکالیف اٹھائی ہیں۔
  3. اگر دونوں فریق (اسرائیل اور حماس) اس تجویز کو مان لیں تو فوراً جنگ ختم ہو جائے گی۔ اسرائیلی فوج یرغمالوں کی رہائی کی تیاری کے لیے متعین علاقوں تک پیچھے ہٹ جائیں گی۔ اس دوران تمام فوجی کارروائیاں، زمینی و فضائی حملے اور بمباری روک دی جائے گی۔
  4. اسرائیل کے اس معاہدے کو قبول کرنے کے اعلان کے بعد حماس کو 72 گھنٹوں کے اندر تمام یرغمالوں کو واپس کرنا ہوگا چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ۔
  5. جب تمام یرغمالی واپس آ جائیں گے تو اسرائیل عمر قید پانے والے 250 فلسطینی قیدیوں اور 1700 غزہ کے افراد (جو سات اکتوبر 2023 کے بعد پکڑے گئے تھے، بشمول تمام خواتین اور بچوں) کو رہا کرے گا۔ ہر اسرائیلی یرغمالی کی لاش کے بدلے غزہ کے 15 افراد کی لاشیں واپس کی جائیں گی۔
  6. تمام یرغمالوں کی واپسی کے بعد حماس کے جو ارکان پرامن رہنے اور ہتھیار ڈالنے پر تیار ہوں گے انہیں معافی دی جائے گی۔ حماس کے جو ارکان غزہ چھوڑنا چاہیں گے انہیں ان ملکوں تک پہنچنے کا محفوظ راستہ دیا جائے گا جو انہیں قبول کرنے پر راضی ہوں۔
  7. اس معاہدے کے ساتھ ہی غزہ میں فوراً مکمل انسانی امداد بھیجی جائے گی۔ امداد کی مقدار کم از کم 19 جنوری 2025 میں ہونے والے امداد کے معاہدے کے مطابق ہو گی جس میں بنیادی ڈھانچے (پانی، بجلی، نکاسی آب)، اسپتالوں اور بیکریوں کی بحالی شامل ہوگی۔ ملبہ ہٹانے اور سڑکیں کھولنے کے لیے بھاری مشینری بھی فراہم کی جائے گی۔
  8. امداد کی تقسیم میں اسرائیل اور حماس دونوں فریق کوئی مداخلت نہیں کریں گے۔ بلکہ یہ کا کام اقوام متحدہ، ریڈ کریسنٹ اور دیگر غیر جانب دار عالمی ادارے کریں گے۔ رفح بارڈر کو اسی طریقہ کار کے تحت کھولا جائے گا جو 19 جنوری 2025 کے معاہدے میں طے ہوا تھا۔
  9. غزہ کا نظامِ حکومت عارضی طور پر ایک ٹیکنوکریٹک فلسطینی کمیٹی کے ذریعے چلایا جائے گا جو سیاست سے دور ہوگی اور غزہ کے روز مرہ کے معاملات چلائے گی۔ یہ کمیٹی قابل فلسطینیوں اور بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل ہوگی۔ اور اس کمیٹی کی نگرانی ایک نیا عالمی ادارہ 'بورڈ آف پیس' کرے گا جس کی سربراہی ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے۔ اس بورڈ میں سابق برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر سمیت دیگر عالمی رہنما شامل ہوں گے۔ بورڈ آف پیس غزہ کی تعمیرنو کے لیے سرمایہ کاری اور فنڈنگ کا فریم ورک تیار کرے گا۔ جب فلسطینی اتھارٹی (جو مقبوضہ مغربی کنارے کا انتظام سنبھالتی ہے) اپنی اصلاحات مکمل کر لے گی تو وہ غزہ کا انتظام سنبھال لے گی۔ یہ بورڈ بہترین عالمی اصولوں کے تحت ایسا جدید اور مؤثر نظامِ حکومت قائم کرے گا جو غزہ کے عوام کی خدمت کرے اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کرے۔
  10. ٹرمپ کی قیادت میں ایک معاشی ترقیاتی منصوبہ بنایا جائے گا جس میں وہ ماہرین شامل ہوں گے جنہوں نے مشرقِ وسطیٰ کے جدید شہروں کی تعمیر میں مدد کی ہے۔ اس سے روزگار، مواقع اور امید پیدا ہوگی۔
  11. غزہ میں ایک خصوصی اقتصادی زون قائم کیا جائے گا جس کے لیے شریک ممالک کے ساتھ تجارتی مراعات اور رعایتوں پر بات ہوگی۔
  12. کسی کو غزہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ جو جانا چاہے وہ جا سکے گا اور واپس بھی آ سکے گا۔ مگر لوگوں کو یہیں رہنے اور غزہ کو بہتر بنانے کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔
  13. حماس اور دیگر گروپس کا غزہ کی حکومت میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔ نہ براہِ راست، نہ بالواسطہ اور نہ کسی اور صورت میں۔ تمام عسکری ڈھانچے جیسے سرنگیں اور ہتھیار بنانے والی فیکٹریاں تباہ کر دی جائیں گی اور دوبارہ تعمیر نہیں کی جائیں گی۔ غزہ کو ہتھیاروں سے پاک کرنے کا عمل آزاد نگرانوں کی نگرانی میں کیا جائے گا جس میں ہتھیاروں کو ہمیشہ کے لیے ناکارہ بنا دیا جائے گا۔ نیا غزہ اپنی پوری توجہ معیشت کو خوش حال بنانے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ پرامن طریقے سے رہنے پر مرکوز کرے گا۔
  14. علاقائی شراکت دار اس بات کی ضمانت دیں گے کہ حماس اور دیگر گروپ اپنی ذمے داریوں پر عمل کریں اور نیا غزہ نہ تو اپنے پڑوسیوں کے لیے اور نہ ہی اپنے عوام کے لیے کوئی خطرہ بنے۔
  15. امریکہ عرب اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایک عارضی انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس (آئی ایس ایف) تشکیل دینے پر کام کرے گا جو فوراً غزہ میں تعینات کی جائے گی۔ یہ فورس غزہ میں فلسطینی پولیس دستوں کو تربیت اور معاونت فراہم کرے گی۔ اس ضمن میں اردن اور مصر سے مشاورت کی جائے گی جن کے پاس اس شعبے کا وسیع تجربہ ہے۔ یہ فورس طویل المدتی اندرونی سیکیورٹی کے حل کے طور پر کام کرے گی۔ آئی ایس ایف اسرائیل اور مصر کے ساتھ مل کر سرحدی علاقوں کی حفاظت میں بھی مدد کرے گی۔ ساتھ ہی تربیت یافتہ فلسطینی پولیس فورسز بھی اس میں شامل ہوں گی۔ اس بات کو یقینی بنانا انتہائی ضروری ہے کہ غزہ میں ہتھیار اور گولہ بارود داخل نہ ہوں اور تعمیرِ نو اور بحالی کے لیے اشیا تیزی اور محفوظ طریقے سے پہنچائی جائیں۔ فریقین ایک ایسا طریقۂ کار طے کریں گے جس کے ذریعے آپریشنز کے دوران تصادم یا غلط فہمیوں سے بچا جا سکے۔
  16. اسرائیل غزہ پر قبضہ نہیں کرے گا اور نہ ہی اسے ضم کرے گا۔ جیسے ہی انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس کنٹرول اور استحکام قائم کرے گی، اسرائیلی فوج غزہ سے مرحلہ وار انخلا کریں گی۔ یہ انخلا ان معیارات، مراحل اور ٹائم فریمز کے مطابق ہوگا جو فریقین کے درمیان طے پائے گا۔ اور ان کا مقصد ایک محفوظ غزہ ہوگا جو اسرائیل، مصر یا ان کے شہریوں کے لیے خطرہ نہ بنے۔ اسرائیلی فوج غزہ کے ان علاقوں کو جن پر اس کا قبضہ ہے، ایک معاہدے کے تحت عبوری اتھارٹی اور آئی ایس ایف کے حوالے کرتی جائے گی۔ یہ عمل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اسرائیلی افواج مکمل طور پر غزہ سے نہیں نکل جاتیں، البتہ ایک حفاظتی حصار کے تحت کچھ موجودگی برقرار رکھی جائے گی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ غزہ دوبارہ کسی دہشت گردی کے خطرے سے دوچار نہ ہو۔
  17. اگر حماس نے اس منصوبے کو ماننے میں تاخیر یا انکار کیا تو امدادی کارروائیاں اور دیگر اقدامات ان علاقوں میں کیے جائیں گے جو دہشت گردی سے پاک کرنے کے بعد اسرائیل کے کنٹرول سے آئی ایس ایف کے حوالے کیے جائیں گے۔
  18. ایک بین المذاہب مکالمہ عمل شروع کیا جائے گا تاکہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی ذہنیت بدلی جا سکے اور امن کے فوائد پر زور دیا جا سکے۔
  19. جب غزہ کی تعمیرِ نو کا عمل آگے بڑھے گا اور فلسطینی اتھارٹی کی اصلاحات کا پروگرام دیانت داری سے مکمل کیا جائے گا، تو ایسی صورتِ حال پیدا ہوسکتی ہے جس سے فلسطینی عوام کو اپنی خودمختاری اور ریاست کے قیام کے لیے ایک سنجیدہ اور قابلِ اعتماد راستہ مل سکے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ فلسطینی عوام کی دیرینہ خواہش ہے۔
  20. امریکہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات کرائے گا تاکہ ایک سیاسی راستے پر اتفاق کیا جا سکے جو پرامن اور خوش حال بقائے باہمی کو یقینی بنائے۔
##امریکہ
##غزہ منصوبہ
##ٹرمپ