
کشمیر میں راستے بند ہیں، موبائل اور انٹرنیٹ سروس بلاک ہے اور نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں احتجاجی مظاہرے پرتشدد شکل اختیار کر گئے ہیں جب کہ حکومت نے مظاہرین سے مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
کشمیر میں حالیہ احتجاج 29 ستمبر کو شروع ہوا تھا جب جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے کشمیر کے سب داخلی راستوں کو بند کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے کشمیر میں راستے بند ہیں، موبائل اور انٹرنیٹ سروس بلاک ہے اور نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔
احتجاج کے دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں بھی ہوئی ہیں جن میں تین پولیس اہلکاروں اور چھ مظاہرین سمیت نو افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ کئی افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں جن میں پولیس اور مظاہرین دونوں شامل ہیں۔ پولیس اور مظاہرین دونوں تشدد کی ذمے داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔

پاکستان کی وفاقی حکومت نے پرتشدد واقعات پر افسوس اور تشویش کا اظہار کیا ہے اور مظاہرین کو پرامن رہنے کی تلقین کی ہے۔ مظاہرین سے مذاکرات کے لیے ایک نئی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو مظفرآباد جا کر مذاکرات کرے گی۔
کمیٹی میں سینیٹر رانا ثناء اللہ، وفاقی وزرا، سردار یوسف اور احسن اقبال، سابق وزیرِ اعظم آزاد و جموں کشمیر مسعود خان اور سینیئر سیاست دان قمر زمان کائرہ شامل ہیں۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے مظاہرے کرنے والے والی جوائنٹ ایکشن کمیٹی سے تعاون کی بھی اپیل کی ہے۔
دوسری جانب جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے مذاکرات کی پیش کش کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے بامعنی مذاکرات کے لیے سب سے پہلے مواصلاتی بلیک آؤٹ یعنی موبائل اور انٹرنیٹ سروس کی بندش فوری طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ کشمیر میں جاری بحران پر فوری توجہ دیں۔
کور کمیٹی کے رکن سردار عمر نذیر کشمیری نے الزام عائد کیا کہ ’ریاستی فورسز اور غیر مقامی اہلکاروں نے اندھا دھند فائرنگ کی ہے جس کے نتیجے میں کم از کم نو نہتے شہری ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔‘ ان کا الزام ہے کہ پولیس کے تین اہلکار بھی غیر مقامی فورسز کی گولیوں سے ہی مارے گئے ہیں۔
دوسری جانب کشمیر کے محکمہ اطلاعات کا کہنا ہے کہ مظاہرین سے جھڑپوں میں 172 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں جن میں سے 12 شدید زخمی ہیں۔ جب کہ 50 شہری بھی زخمی ہوئے ہیں۔ محکمۂ اطلاعات نے کہا ہے کہ لوگ 'سوشل میڈیا پر کسی خاص ایجنڈے کے تحت پھیلائی جانے والی جھوٹی خبروں پر کان نہ دھریں۔'
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’جان بوجھ کر اشیائے ضروریہ، خوراک اور ایندھن کی قلت پیدا کرنے کے لیے بین الصوبائی شاہراہوں کو بند کر دیا گیا ہے جب کہ ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں، کارکنوں اور صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔‘
بیان کے مطابق ’عوامی ایکشن کمیٹی نے پاکستان یا اس کی مسلح افواج کے خلاف کوئی مہم شروع نہیں کی۔ یہ تحریک مکمل طور پر پرامن اور آئینی ہے اور اس کا مقصد صرف کشمیری عوام کے سماجی، معاشی اور سیاسی حقوق کو یقینی بنانا ہے۔‘
یاد رہے کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے کشمیر میں پہلے بھی آٹے اور بجلی کے نرخوں کے خلاف بڑے مظاہرے کیے گئے تھے اور ان مظاہروں میں وہ حکومت سے اپنے مطالبات منوانے میں بھی کامیاب رہے تھے۔