
مصری اور قطری حکام جو اس منصوبے میں ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں، وہ اسرائیل اور حماس دونوں کے وفود کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ کیوں کہ یہ مذاکرات براہِ راست نہیں ہو رہے۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ امن منصوبے پر بالواسطہ مذاکرات کا آج دوسرا دن ہے۔ دونوں فریقین کے نمائندہ وفود مصر کے شہر شرم الشیخ میں موجود ہیں اور ابتدائی طور پر بات چیت کا محور اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی ہے۔
پیر کو مذاکرات کا پہلا دن تھا۔ مصری اور قطری حکام جو اس منصوبے میں ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں، وہ اسرائیل اور حماس دونوں کے وفود کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ کیوں کہ یہ مذاکرات براہِ راست نہیں ہو رہے۔
تنازع کے دونوں مرکزی فریقین نے ٹرمپ کے امن منصوبے کے بنیادی نکات پر تو اتفاق کیا ہے کہ جنگ بندی، یرغمالوں کی رہائی اور غزہ میں امداد کی فراہمی ہونی چاہیے۔ لیکن دونوں کو کچھ شقوں پر تحفظات بھی ہیں اور انہی پر بات چیت کے لیے یہ مذاکرات ہو رہے ہیں۔

مذاکرات میں کن معاملات پر بات ہو رہی ہے؟
مذاکرات سے واقف ایک فلسطینی عہدے دار نے رائٹرز کو بتایا کہ پیر کی رات بات چیت کا پہلا دور مکمل ہوا اور دوسرا دور منگل کو شروع ہوگا۔ یاد رہے کہ آج یعنی منگل کو یہ جنگ شروع ہوئے پورے دو سال مکمل ہو گئے ہیں۔ حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیلی علاقوں پر حملہ کیا تھا جس کے بعد اسرائیل نے یہ جنگ شروع کی تھی۔

مصر میں جاری مذاکرات کے باوجود اسرائیلی فوج غزہ میں حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ حالاں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اسرائیل کو بمباری روکنے کا کہہ چکے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل کے سینیئر سیکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ مذاکرات کے پہلے مرحلے میں ساری توجہ یرغمالوں کی رہائی پر مرکوز ہے اور حماس کو کچھ دن کا وقت دینا ہے جس میں وہ سب یرغمالوں کو لوٹا سکے۔
سیکیورٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ اسرائیل فوجیوں کے انخلا کے معاملے پر کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا اور انخلا 'یلو لائن' تک ہی ہوگا۔ یلو لائن ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے میں ایک حد طے کی گئی ہے کہ ابتدائی طور پر اسرائیلی فوج اس علاقے تک پیچھے ہٹ جائے گی۔

'مذاکرات میں کچھ دن لگ سکتے ہیں'
دوسری جانب غزہ اور اسرائیل کے شہریوں کی نظریں ان مذاکرات پر لگی ہیں جس سے ان کا مستقبل جڑا ہے۔
غزہ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ یہ مذاکرات ان کی آخری امید ہیں۔ اسرائیل میں بھی جنگ ختم کرنے اور یرغمالوں کی فوری رہائی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وہ جلد از جلد یہ معاہدہ چاہتے ہیں۔ انہوں نے حماس کو بھی دھمکی دی تھی کہ اگر وہ تین، چار دن میں اس منصوبے کو قبول نہیں کرتی تو اس کے نتائج سنگین ہوں گے۔ لیکن مذاکرات سے واقف ایک عہدے دار کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات میں کچھ دن لگ جائیں گے۔
ایک فلسطینی ذریعے نے بتایا کہ ٹرمپ نے منصوبے میں تمام یرغمالوں کی واپسی کے لیے 72 گھنٹوں کا وقت دیا ہے۔ لیکن اس مقررہ وقت میں شاید مردہ یرغمالوں کی لاشیں واپس کرنا ممکن نہ ہو۔ کیوں کہ ان کی باقیات کو ڈھونڈنا پڑے گا اور تباہ حال علاقوں سے نکالنا ہوگا جو ایک وقت طلب کام ہے۔
مصر میں امریکی نمائندہ خصوصی سٹیو وٹکوف، ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر اور قطری وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی بھی موجود ہیں۔