ٹرمپ کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کے لیے دیا گیا 20 نکاتی ڈرافٹ وہ نہیں جس پر 8 مسلم ممالک راضی ہوئے تھے، اسحاق ڈار

11:153/10/2025, Cuma
جنرل3/10/2025, Cuma
ویب ڈیسک
اسحاق ڈار، وزیر خارجہ
تصویر : یوٹیوب اسکرین گریب / قومی اسمبلی
اسحاق ڈار، وزیر خارجہ

پاکستان کی حکومت امریکی صدر کی جانب سے پیش کیے گئے بیس نکاتی امن منصوبے سے پیچھے ہٹی نظر آرہی ہے۔

آج (جمعے کو) قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو ’غزہ امن منصوبے 20 نکات پیش کیے وہ ہمارے نہیں بلکہ اس میں تبدیلی کی گئی ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ وہ ڈرافٹ نہیں جو ہم نے بنایا تھا۔ میرے پاس سارا ریکارڈ موجود ہے۔‘

اسحاق ڈار کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان میں اپوزیشن کی جماعتیں غزہ سے متعلق صدر ٹرمپ کے ڈرافٹ اور پاکستانی حکومت کی جانب سے اس کی توثیق پر تنقید کر رہی تھیں۔ بعض حلقوں کا کہ یہ بھی دعوی تھا کہ تنازع سے متعلق پاکستان نے اپنی پالیسی میں تبدیلی کی ہے۔

اپنی تقریر میں اسحاق ڈار نے بتایا کہ آٹھ عرب اور مسلم ممالک نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (یو این جی اے) کے موقع پر غزہ کے حوالے سے ایک اجلاس میں شرکت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ’اس اجلاس کے دوران کوئی اور ایجنڈا زیرِ غور نہیں آیا۔ آج میں آپ کو اس کی تفصیلات بتا رہا ہوں۔ فیصلہ یہ کیا گیا تھا کہ معاملے کو خاموش رکھا جائے۔‘


اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ہم تن تنہا اس جنگ کو بند کرانے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ اس معاملے پر اسلامی ممالک کی تنظیم، اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل تک ناکام ہو چکی تھی۔ اگر ہم نے کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کی تو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔

وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ مرکزی اجلاس سے پہلے آٹھوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ایک تیاری میٹنگ نیویارک میں ہوئی، جہاں غزہ کی صورتحال پر غور کیا گیا۔

وزیر اعظم کی ٹوئٹ سے متعلق وزیر خارجہ نے کہا کہ جب امریکی صدر نے ٹوئٹ کی تو شہباز شریف سفر کررہے تھے۔ ’جب امریکی صدر نے ٹوئٹ کی تو اس کے جواب میں انہوں نے (شہباز شریف) ٹوئٹ کردی، ان کو کوئی الہام تو نہیں ہونا تھا کہ وہ بیس پوائنٹ وہ نہیں ہیں جو آٹھ ملکوں نے بھیجے، جب ہم نے ڈرافٹ دیکھا تو فوری طور پر اس معاملے میں اپنا بیان جاری کیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’بہرحال یہ اینڈ رزلٹ ہے اور اس معاملے پر سیاست کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ’پاکستان کی پالیسی وہی ہے جو قائد اعظم کی فلسطین کے حوالے سے پالیسی تھی، اس میں نہ کوئی تبدیلی تھی، ہے اور نہ ہوگی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم خودمختار اور مکمل طور پر آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت کرتے ہیں، جس کی علاقائی سالمیت قائم ہو اور جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔ یہی ہماری پالیسی ہے۔‘


’لندن سے واپس آ رہا تھا کہ سعودی وزیر خارجہ کا پیغام ملا کہ برادر ہمیں مشترکہ بیان جاری کرنا پڑے گا‘

وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم کی پریس کانفرنس کے بعد اُنہیں سعودی وزیر خارجہ کا پیغام موصول ہوا۔

اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ سعودی وزیر خارجہ نے انہیں بتایا کہ ٹرمپ کے پیش کیے گئے ڈرافٹ میں بہت سی چیزیں مان لی گئی ہیں، لیکن ہمیں کچھ میں اُن سے بات کرنا پڑے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت ہمارے پاس دو راستے تھے یا تو ہم ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی ڈرافٹ پر اعتراض کرتے اور اسرائیل کو غزہ میں مزید خون بہانے کا موقع ملتا۔ سعودی وزیر خارجہ نے تجویز دی کہ مسلم اور عرب ممالک کو اس معاملے پر ایک مشترکہ بیان جاری کرنا چاہیے جو ریکارڈ پر لانے کے ساتھ ساتھ ٹرمپ انتظامیہ کو بھی بھجوایا جائے‘۔

اسحاق ڈار نے ایوان میں وہ مشترکہ بیان بھی پڑ کر سنایا۔ جس میں ان کا کہنا تھا کہ اردن، یو اے ای، انڈونیشیا، پاکستان، ترکیہ، سعودی عرب، قطر اور مصر ٹرمپ کی غزہ میں جنگ ختم کرنے کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ اٹھ ممالک جن پوائنٹس پر راضی ہوئے ان میں غزہ میں فوری جنگ بندی، غزہ کو دوبارہ تعمیر کرنا، غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی نہ ہونا، مغربی کنارہ، غزہ کا حصہ ہو گا۔ مغویوں کی رہائی، اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا، دو ریاستی حل کی بنیاد پر امن کا راستہ بنایا جائے۔








#مشرق وسطیٰ
#ڈونلڈ ٹرمپ
#اسرائیل حماس جنگ
##غزہ منصوبہ