ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے پر اٹھنے والے وہ سوالات جن کے جواب واضح نہیں

13:4030/09/2025, منگل
رپورٹر
فائل فوٹو
فائل فوٹو

پچھلے دو برسوں سے جاری اس جنگ کے دوران ہزاروں افراد کی جانیں گئیں اور ہزاروں ہمیشہ کے لیے معذور ہوئے۔ کیا ان کے دکھوں کا کوئی مداوا نہیں ہوگا؟ کیا ہزاروں بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں اور لاکھوں افراد کو انتہائی برے حالات میں پہنچانے کے ذمے داروں کو کوئی سزا نہیں ملے گی؟

تحریر: عدیل احمد (صحافی، ینی شفق)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے لیے جو 20 نکاتی امن معاہدہ تجویز کیا ہے، اس کا اگر جائزہ لیں تو تقریباً تمام ہی نکات اسرائیل کے تو حق میں ہی ہیں۔ لیکن اس منصوبے میں غزہ کے رہائشیوں، حماس اور فلسطینیوں کے لیے بہت سے سوالات ہیں جن کے جواب واضح نہیں۔

اسرائیل ایسا غزہ چاہتا ہے جس سے اسے کوئی خطرہ نہ ہو اور اس معاہدے میں اس کا پورا خیال رکھا گیا ہے کہ غزہ کو حماس اور ان دیگر گروپس سے پاک کر دیا جائے جو فلسطین کی آزادی کے لیے ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں۔

اسرائیل کی ایک خواہش یہ بھی ہو سکتی ہے کہ غزہ کا کنٹرول عملاً اسی کے پاس رہے جیسے وہ مقبوضہ مغربی کنارے پر رکھتا ہے۔ اس منصوبے کو دیکھیں تو اس میں غزہ کا انتظام ایک عارضی کمیٹی کے سپرد کرنے کی بات کی گئی ہے جس کی نگرانی خود ٹرمپ کی سربراہی میں ایک بورڈ کرے گا۔ اور پھر مستقبل میں غزہ کا کنٹرول اسی فلسطینی اتھارٹی کو دینے کی بات کی گئی ہے جو مغربی کنارے کا انتظام سنبھالتی ہے۔

ایک اور اہم بات اس منصوبے میں یہ بھی کی گئی ہے کہ اسرائیلی فوجیں انٹرنیشل اسٹیبیلائزیشن فورس کے آنے کے بعد مرحلہ وار پیچھے ہٹ جائیں گی اور اپنے زیرِ قبضہ علاقوں کو اس فورس کے حوالے کر دیں گی۔ لیکن یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فورسز ایک حفاظتی حصار کے تحت کچھ موجودگی برقرار رکھیں گی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ غزہ دوبارہ کسی دہشت گردی کے خطرے سے دوچار نہ ہو۔ یعنی یہ ممکن ہے کہ غزہ کے اطراف اسرائیلی فوج کی موجودگی برقرار رہے۔ اگر ایسا ہوا تو عملاً غزہ کی سرحدوں پر اسرائیل کا ہی کنٹرول ہوگا۔

جب کہ اگر فلسطینیوں کے نظریے سے دیکھیں تو وہ ایک خود مختار اور آزاد ریاست چاہتے ہیں جس میں اسرائیل کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ لیکن اس معاہدے میں اس ریاست کے قیام کی یا دو ریاستی حل کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی۔ بلکہ صرف مبہم سی امید دی گئی ہے کہ مستقبل میں اس کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔

غزہ کا نظام سنبھالنے کے لیے جو عارضی کمیٹی بنائی جائے گی وہ ٹرمپ کی سربراہی میں بننے والے بورڈ کی نگرانی میں کام کرے گی۔ تو یہ کمیٹی اپنے فیصلوں میں کتنی آزاد ہوگی؟ اس کے فیصلوں پر امریکہ اور اسرائیل کتنے اثر انداز ہوں گے؟ اور کیا غزہ کے لوگ اس کمیٹی کے فیصلوں کو یا کمیٹی کو حکومت کے طور پر تسلیم کریں گے؟ یہ بھی ایک بڑا سوال ہے۔

ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ مستقبل میں غزہ کا انتظام اصلاحات کے بعد فلسطینی اتھارٹی کو دینے کی بات کی گئی ہے۔ لیکن فلسطینی اتھارٹی پر پہلے ہی کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ اکثر فلسطینی اس اتھارٹی پر کرپٹ اور اسرائیل نواز ہونے کے الزامات لگاتے ہیں۔ تو کیا غزہ کے لوگ اس اتھارٹی کو قبول کریں گے؟

حماس جو غزہ میں کئی برسوں سے نظامِ حکومت سنبھالے ہوئے تھی اور غزہ کے تنازع کی ایک اہم فریق ہے۔ لیکن اس فریق کے لیے اس منصوبے میں کچھ نہیں ہے۔ نہ ہی اس کا مستقبل کی حکومت میں کوئی کردار ہوگا نہ ہی کسی علاقے پر کنٹرول۔ بلکہ صرف یہ کہا گیا ہے کہ حماس کے ارکان اگر غزہ چھوڑ کر جانا چاہیں تو انہیں جانے دیا جائے گا اور اگر ہتھیار ڈال دیں تو انہیں معاف کر دیا جائے گا۔

لیکن جب مستقبل کے منظر نامے میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہوگا تو کیا وہ یہ منصوبہ اور اس کی شرائط قبول کرے گی؟ اس کا جواب چند گھنٹوں میں ہی سامنے آ سکتا ہے۔

اور آخر میں سب سے اہم سوال یہ کہ پچھلے دو برسوں سے جاری اس جنگ کے دوران ہزاروں افراد کی جانیں گئیں اور ہزاروں لوگ ہمیشہ کے لیے معذور ہوئے۔ کیا ان کے دکھوں کا کوئی مداوا نہیں ہوگا؟ کیا ہزاروں بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں اور لاکھوں افراد کو انتہائی برے حالات میں پہنچانے کے ذمے داروں کو کوئی سزا نہیں ملے گی؟


##غزہ
##غزہ امن منصوبہ
##امریکہ