
’ اسرائیل اور حماس کے درمیان اب بھی کچھ ’سنجیدہ اختلافات‘ موجود ہیں‘
غزہ امن معاہدے کے حوالے سے کچھ تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی عمل میں لائی جائے گی، اس کے بعد مرحلہ وار ان اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشوں کی واپسی ہوگی جو ہلاک ہوچکے ہیں۔
اس کے بدلے میں اسرائیل تقریباً 1950 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، جن میں 250 ایسے افراد بھی شامل ہیں جو عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق تاہم معاہدے کے دیگر حصے اب بھی غیر واضح ہیں، خصوصاً حماس کے غیر مسلح ہونے کے حوالے سے کہ یہ کب اور کس طرح عمل میں آئے گا، اس بارے میں تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔
یہ بھی سمجھا جا رہا ہے کہ اسرائیل غزہ کے اندر ایک طے شدہ حد تک اپنی فوج واپس بلائے گا، جو کہ ایک بڑے انخلا کے منصوبے کا حصہ ہے۔
قطر اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک میں اس وقت احتیاطاً امید کی فضا پائی جا رہی ہے، مگر یہ سوال اب بھی موجود ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل دوبارہ جنگ یا غزہ میں نسل کشی شروع نہیں کرے گا؟
’حماس اور اسرائیل کے درمیان اب بھی کچھ سنجیدہ اختلافات‘ موجود ہیں‘
الجزیرہ کے سینئر تجزیہ کار مروان بشارہ کے مطابق اسرائیل اور حماس کے درمیان اب بھی کچھ ’سنجیدہ اختلافات‘ موجود ہیں، اور کئی اہم معاملات پر اتفاق رائے ہونا باقی ہے۔ ان میں اسرائیلی انخلا کا وقت اور دائرہ کار، جنگ ختم ہونے کے بعد غزہ میں کی انتظامیہ کا تعین اور حماس کا مستقبل شامل ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابتدائی مرحلے کا صرف ابتدائی حصہ طے پایا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ دونوں فریق ’یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے کے کچھ عمومی نکات‘ پر متفق دکھائی دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ٹرمپ پلان کے مطابق جب حماس یرغمالیوں کو رہا کر دے گی تو جنگ ختم ہو جانی چاہیے۔ لیکن اسرائیل کا کہنا ہے کہ جنگ تب ہی ختم ہوگی جب حماس اپنے ہتھیار ڈال دے گی۔‘