
پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع گھوٹکی کے علاقے میر پور ماتھیلو میں مقامی صحافی طفیل احمد رند کو بدھ کی صبح مسلح حملہ آوروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
پاکستان کے مین سٹریم انگریزی اخبار ڈان کے مطابق حملہ اس وقت ہوا جب وہ اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنے کے لیے جا رہے تھے۔
پولیس کے پریس ریلیز کے مطابق موٹرسائیکل پر سوار حملہ آوروں نے ان کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کی۔ خوش قسمتی سے ان کے ساتھ موجود بچے اس حملے میں محفوظ رہے۔ پولیس نے صحافی کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے میرپور ماتھیلو ہسپتال منتقل کر دیا ہے۔
واقعے کے فوراً بعد گھوٹکی کے کئی صحافی جائے وقوع پر پہنچے، قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کی اور فوری انصاف کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے صوبائی حکام سے کہا کہ ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور ہائی رسک علاقوں میں میڈیا کارکنوں کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔
ہلاک صحافی کے رشتہ دار کے مطابق طفیل احمد رند ’مہرن نیوز پیپر‘ اور ’رائل نیوز‘ سے منسلک تھے اور میرپور ماتھیلو پریس کلب کے دفتر کے رکن بھی تھے۔ وہ پہلے بھی ایک قاتلانہ حملے سے بچ چکے تھے، جس میں انہوں نے مقامی انتظامیہ سے سکیورٹی کی درخواست کی تھی، لیکن کوئی مؤثر اقدام نہیں کیا گیا۔
ایس ایس پی نے بتایا کہ چند ماہ قبل طفیل رند نے اپنے گھر پر فائرنگ کے واقعے کی اطلاع دی تھی، جس پر پولیس نے ایک شخص کو گرفتاری کیا تھا۔
قتل کے چند گھنٹوں بعد طفیل احمد کی آٹھ سالہ بھانجی یہ خبر کو سن کر بے ہوش ہو گئی۔ اسے فوری طور پر میرپور ماتھیلو ہسپتال پہنچایا گیا لیکن راستے میں ہی وہ وفات پا گئی۔
ملزم گرفتار
گھوٹکی کے ایس ایس پی انور کھیتران نے ڈان کو بتایا ہے کہ طفیل احمد رند کے قتل کے سلسلے میں دو ملزمان کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ایس ایس پی کھیتران کے مطابق ہلاک صحافی کے پچھلے چار سال سے اپنی کمیونٹی کے بعض افراد کے ساتھ تنازع تھا، جس دوران پہلے دو افراد قتل ہو چکے تھے۔
انہوں نے کہا کہ حریف گروپوں کے دونوں اطراف کے افراد پہلے ہی جیل میں ہیں اور یہ اسی تنازعے سے متعلق تیسرا قتل ہے۔
ایس ایس پی نے مزید کہا کہ ’صحافی طفیل رند کے قتل میں ملوث تمام افراد کو گرفتار کر لیا جائے گا۔‘
سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے واقعے کا نوٹس لیا اور سندھ کے انسپکٹر جنرل غلام نبی میمن سے فوری رپورٹ طلب کی۔
وزیر اعلیٰ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’صحافیوں پر حملے پریس کی آزادی پر حملے ہیں، جو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیے جا سکتے۔‘
’پاکستان دنیا میں صحافیوں کے لیے خطرناک ممالک‘
پچھلے مہینے اینکر پرسن امتياز میر کو کراچی کے علاقے ملیر میں گولی مار دی گئی اور چند دن بعد وہ وفات پا گئے تھے۔
رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے پاکستان کو دنیا کے سب سے خطرناک ممالک میں سے ایک قرار دیا ہے، کیونکہ یہاں صحافیوں کے قاتلوں کو سزا نہ ملنے کی شرح بہت زیادہ ہے۔
کومن ویلتھ ہیومن رائٹس انیشی ایٹو کی رپورٹ کے مطابق 2006 سے 2023 کے درمیان پاکستان میں 87 صحافی قتل کیے گئے، جن میں سے صرف دو کیسز ’حل‘ ہوئے۔
گزشتہ سال اگست میں نامعلوم مسلح افراد نے ایک اور گھوٹکی کے صحافی محمد بچل گھنیو کو قتل کر دیا، جو ایک نجی سندھی ٹی وی چینل سے منسلک تھے۔
اسی طرح ایک اور گھوٹکی کے صحافی نصر اللہ گڈانی، جو ایک سندھی اخبار کے لیے کام کرتے تھے، کو مئی 2024 میں حملہ کر کے شدید زخمی کر دیا گیا۔ وہ تین دن بعد کراچی کے ایک ہسپتال جاں بحق ہو گئے۔