
یہ ٹرمپ کے دوسری بار صدر بننے کے بعد نیتن یاہو کا چوتھی بار وائٹ ہاؤس کا دورہ ہوگا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں کوئی بڑی پیش رفت ہونے جا رہی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو سے ملاقات کریں گے۔ امکان ہے کہ صدر ٹرمپ اس ملاقات میں غزہ امن معاہدے پر زور دیں گے۔
یہ ٹرمپ کے دوسری بار صدر بننے کے بعد نیتن یاہو کا چوتھی بار وائٹ ہاؤس کا دورہ ہوگا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں کوئی بڑی پیش رفت ہونے جا رہی ہے۔ انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ٹروتھ سوشل' پر پوسٹ کیا کہ 'ہمارے پاس مشرقِ وسطیٰ میں ایک بڑا موقع ہے۔ کچھ خاص ہونے والا ہے جس پر پہلی بار سب فریق ساتھ ہیں۔ ہم یہ کر کے دکھائیں گے۔'
دوسری جانب ٹرمپ نے اتوار کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ نیتن یاہو غزہ میں جنگ ختم کرنے کے اور یرغمالوں کی رہائی کے فریم ورک پر رضامند ہوجائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں بہت اچھا ردعمل مل رہا ہے کیوں کہ بی بی (نیتن یاہو) بھی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہر فریق معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔'
انہوں نے سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، اردن اور مصر کے رہنماؤں کو معاونت کا کریڈٹ دیتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے سے غزہ سمیت پورے مشرقِ وسطیٰ میں امن کی توقع ہے۔
ٹرمپ کے بقول 'اسے غزہ سے زیادہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کا نام دیا گیا ہے۔ غزہ اس کا حصہ ہے لیکن یہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں امن کے لیے ہے۔'
تاہم دوسری جانب جب ایک اسرائیلی اعلیٰ عہدے دار سے پوچھا گیا کہ کیا غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے پر رضامندی ہو گئی ہے تو عہدے دار نے کہا کہ ابھی یہ کہنا 'قبل از وقت' ہوگا۔ اسرائیلی عہدے دار نے کہا کہ نیتن یاہو جب پیر کو ٹرمپ سے ملیں گے تو معاہدے پر اسرائیل کا مؤقف ان کے سامنے رکھیں گے۔
واضح رہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کو ملک کے اندر اور باہر سے سخت دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ جنگ ختم کریں۔ اسرائیل میں یرغمالوں کی فیملیز اور عوامی رائے بھی اس حق میں ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے کوئی معاہدہ ہونا چاہیے۔ تاہم اسرائیلی حکومت اب تک ان مطالبات کے سامنے کھڑی نظر آئی ہے۔
گزشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران سائیڈ لائنز پر عرب اور مسلم ملکوں کے درمیان ایک 21 نکاتی معاہدہ بھی گردش کرتا رہا۔ وائٹ ہاؤس کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ اس معاہدے میں تمام یرغمالوں کی رہائی، قطر پر مزید اسرائیلی حملے روکنے اور اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان 'پرامن بقائے باہمی' پر نئے مذاکرات شروع کرنے کی بات کی گئی ہے۔
امریکہ کی حمایتر یافتہ جنگ بندی کی پہلی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں اور نیتن یاہو حماس کو مکمل ختم کرنے تک لڑائی جاری رکھنے کا کہہ چکے ہیں۔ تاہم ٹرمپ اور نیتن یاہو کی پیر کو ملاقات ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب پچھلے ہفتے ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہوا ہے جس میں غزہ جنگ گفتگو کا محور بنی رہی اور اسرائیل کو سخت تنقید کا بھی سامنا رہا۔
اس اجلاس کے دوران کئی اہم مغربی ملکوں اور امریکہ کے اتحادیوں نے فلسطین کو ریاست تسلیم کر لیا ہے۔
نیتن یاہو نے اس پر ردعمل دیا کہ فلسطین کو تسلیم کرنے سے عالمی رہنما یہ پیغام دے رہے ہیں کہ 'یہودیوں کے قتل کا صلہ مل رہا ہے۔' امریکہ اور اسرائیل دونوں نے فلسطین کو تسلیم کرنے کی مخالفت اور اس پر تنقید کی ہے۔
اگرچہ ٹرمپ اور نیتن یاہو زیادہ تر ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ رہے ہیں اور امریکہ بدستور اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے والا اہم ملک ہے، لیکن پیر کی ملاقات میں تناؤ کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔
نیتن یاہو کے کچھ سخت گیر وزرا نے کہا ہے کہ حکومت کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے جواب میں مقبوضہ مغربی کنارے کے تمام یا کچھ حصوں پر باضابطہ طور پر اسرائیلی خودمختاری نافذ کر دینی چاہیے تاکہ فلسطین کی آزادی کی امیدوں کو ختم کیا جا سکے۔
تاہم جمعرات کو ٹرمپ نے کہا کہ وہ اسرائیل کو مغربی کنارے کو ضم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کو ضم کرنے کا اقدام تاریخی ابراہیمی معاہدوں کو سبوتاژ کر سکتا ہے۔ ابراہمی معاہدے ٹرمپ کی پہلی ٹرم کے دوران خارجہ پالیسی کی ایک بڑی کامیابی تھی جس کے تحت کئی عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔