
صمود فلوٹیلا سے پہلے بھی حال ہی میں دو مرتبہ ایسی ہی کوششیں ہو چکی ہیں لیکن وہ دونوں فلوٹیلا بھی اسرائیلی فوج نے روک لیے تھے اور ان کے اراکین کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔
اسرائیلی فوج نے غزہ جانے والے کشتیوں کے قافلے 'صمود فلوٹیلا' کو روک کر سب مسافروں کو گرفتار تو کر لیا ہے۔ لیکن اب ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اور گرفتار افراد کو کن قانونی مراحل سے گزرنا ہوگا۔ یہ سوال بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں ہوگا۔ تو اسی کا جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس سے پہلے فلوٹیلا کے ارکان کے ساتھ کیا ہوا تھا؟
صمود فلوٹیلا سے پہلے بھی حال ہی میں دو مرتبہ ایسی ہی کوششیں ہو چکی ہیں لیکن وہ دونوں فلوٹیلا بھی اسرائیلی فوج نے روک لیے تھے اور ان کے اراکین کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ محاصرہ توڑنے کی کوشش کے دوران گرفتار ہونے والے ایکٹیوسٹس کو پہلے گرفتار ہونے والوں کی طرح اسرائیل لے جایا جائے گا جہاں سے انہیں ڈی پورٹ کیا جائے گا۔
صمود فلوٹیلا کے بعض اراکین کو اسرائیل نے پہلے بھی گرفتار کیا تھا جن میں ماحولیاتی ایکٹیوسٹ گریٹا تھنبرگ بھی شامل ہیں۔ لیکن ان افراد پر پہلے فوجداری قوانین کے تحت کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا تھا بلکہ امیگریشن کے قوانین کے تحت معاملے کو نمٹایا گیا تھا۔
جب جون میں گریٹا تھنبرگ کے پچھلے فلوٹیلا کو روکا گیا تھا تو انہوں نے اور دیگر تین کارکنوں نے ملک بدری کے احکامات پر دستخط کیے تھے۔ جن میں یہ شرط شامل تھی کہ وہ 72 گھنٹے تک اپنی ملک بدری مؤخر کرنے اور اپیل کرنے کے حق سے دست بردار ہو رہے ہیں۔ اس کے بعد انہیں فوراً ملک سے نکال دیا گیا تھا۔
ان کے علاوہ آٹھ اراکین نے ان احکامات پر دستخط کرنے سے انکار کیا تھا۔ ان اراکین نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ وہ اسرائیلی سرزمین پر داخل ہی نہیں ہونا چاہتے تھے، انہیں اسرائیلی حکام زبردستی یہاں لائے ہیں۔ ان افراد کو تل ابیب ایئرپورٹ پر حراست میں رکھا گیا تھا اور ایک رکن کو کچھ عرصے کے لیے قیدِ تنہائی میں بھی رکھا گیا تھا۔
ان اراکین کی نمائندگی کرنے والی ایک این جی او نے بتایا کہ ان کا معاملہ ایک ٹریبونل کے سامنے گیا جس نے ان کی ملک بدری کے احکامات برقرار رکھے۔ وکلا نے بتایا کہ جن لوگوں کو ملک بدر کیے گئے اراکین پر 100 سال تک اسرائیل واپس آنے پر پابندی لگائی گئی ہے۔
ڈی پورٹ کرنے سے پہلے شناخت اور دیگر کارروائیاں
اسرائیل میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی ایک تنظیم عدالہ، پہلے بھی فلوٹیلا کے گرفتار اراکین کی نمائندگی کر چکی ہے۔ تنظیم کے قانونی معاملات دیکھنے والی صہاد بشارہ نے جمعرات کو رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی ٹیم اشدود کی بندرگاہ پر گرفتار ہونے والے اراکین کی آمد کا انتظار کر رہی ہے۔ اشدود کی بندرگاہ غزہ کی پٹی سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی فلوٹیلا کے اراکین پہنچیں گے، ان کی شناخت کی جائے گی اور انہیں امیگریشن اتھارٹی کے حوالے کیا جائے گا تاکہ ان کی متوقع ملک بدری کا عمل شروع کیا جا سکے۔ اس کے بعد انہیں حراستی مرکز میں منتقل کیا جائے گا اور غالب امکان ہے کہ انہیں جنوبی اسرائیل کی کیزیوت جیل میں رکھا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مرحلے پر ہمیں سب سے زیادہ تشویش اس کی ہے کہ وہ ٹھیک ہوں، ان کی صحت اچھی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہم یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان سب کو امگریشن ٹریبیونل میں سماعت سے پہلے قانونی مشاورت فراہم کی جائے۔
حراست میں لیے گئے افراد کو ہائی سیکیورٹی جیل میں رکھا جائے گا
پیرس سائنسز پو یونیورسٹی میں خدمات انجام دینے والے بین الاقوامی قوانین کے اسرائیلی ماہر عمر شاتر کہتے ہیں کہ پہلے گرفتار ہونے والے فلوٹیلا اراکین کے برعکس اس مرتبہ گرفتار ہونے والوں کو کیزیوت جیل میں لے جایا جائے گا جو ایک ہائی سیکیورٹی جیل ہے۔ ان کے بقول امیگریشن کے معاملات میں حراست میں لیے گئے افراد کو عام طور پر اس جیل میں نہیں رکھا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ کارکنوں کو وہاں اس لیے رکھا جا سکتا ہے کیوں کہ 500 افراد کو پروسیس کرنا اسرائیل کے لیے مشکل ہوگا۔ تاہم شاتز کہتے ہیں کہ کیزیوت جیل اپنے سخت حالات کے لیے مشہور ہے۔
جو پہلے بھی گرفتار ہو چکے ہیں، ان کے ساتھ کیا ہوگا؟
عدالہ نے قانونی کارروائی سے متعلق اپنے ایک بیان میں کہا کہ اگرچہ اسرائیلی حکام کے پاس امدادی قافلوں میں بار بار شریک ہونے والوں کا ریکارڈ موجود ہوتا ہے، لیکن گریٹا تھنبرگ جیسے کارکنوں کے ساتھ عام طور پر پہلی بار شریک ہونے والوں جیسا ہی سلوک کیا جاتا ہے۔ یعنی انہیں قلیل مدت کے لیے حراست میں رکھا جاتا ہے اور پھر ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ حالیہ دنوں میں اسرائیلی حکام، جن میں نیشنل سیکیورٹی کے وزیر اتمار بن گویر بھی شامل ہیں، کی جانب سے یہ تجاویز سامنے آئی ہیں کہ امدادی قافلوں میں شریک افراد کو طویل مدت تک حراست میں رکھا جائے۔
تنظیم کا کہنا تھا کہ 'یہ سنگین خدشات موجود ہیں کہ کارکنان کے ساتھ پہلے کے امدادی قافلوں کے مقابلے میں زیادہ سخت برتاؤ کیا جا سکتا ہے۔'
اسرائیل کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کارکنوں کی حراست سے متعلق رائٹرز کے سوالات کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔
تاہم اسرائیل کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ اسرائیلی بحریہ نے فلوٹیلا کو خبردار کیا تھا کہ وہ ایک فعال جنگی علاقے کے قریب جا رہا ہے اور ایک 'قانونی بحری ناکہ بندی' کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اور منتظمین سے راستہ بدلنے کو کہا گیا تھا۔ وزارتِ خارجہ کے مطابق اسرائیل نے امداد کو خود غزہ منتقل کرنے کی پیشکش بھی کی تھی۔