
افغانستان میں خشک سالی اور بے ترتیب بارشیں بڑھ رہی ہیں۔ امدادی اداروں کے مطابق کابل ایشیا کے ان شہروں میں شامل ہے جو پانی کی سب سے زیادہ قلت کا شکار ہیں۔
آٹھ سالہ نوراللہ کا دن اپنے جڑواں بھائی ثناءاللہ کے ساتھ ایک چھوٹی ہاتھ گاڑی پر پانی کے گیلن کھینچنے میں گزرتا ہے۔ وہ اسکول جانے کے بھائے کابل کی گلیوں میں پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ نوراللہ کے خاندان کی کہانی سے افغانستان میں پانی کے بحران کی ایک جھلک نظر آتی ہے۔
نوراللہ کا 13 نفوس پر مشتمل خاندان کبھی لوگوں کو اپنے ذاتی بور سے پانی دیتا تھا لیکن اب انہیں یا تو عوامی نلکوں پر لمبی قطاروں میں لگنا پڑتا ہے یا پھر محلے داروں کے ساتھ پیسے ملا کر پانی کے ٹینکر منگوانے پڑتے ہہیں۔ کیوں کہ ان کے بور کا پانی چار سال پہلے سوکھ چکا ہے۔

کابل میں قائم ایک ریسرچ گروپ ‘دی افغانستان اینالسٹس نیٹورک’ نے رواں ماہ اپنی ایک رپورٹ میں خبردار کیا کہ شہر کا زمینی پانی 2030 تک ختم ہو سکتا ہے۔ اور کئی دیگر افغان شہروں میں بھی یہی صورتِ حال پیدا ہو سکتی ہے۔
پانی کے بحران کی وجہ سے عدم مساوات بھی بڑھ رہی ہے۔ کیوں کہ غریب گھرانے اپنی آمدن کا تقریباً 30 فیصد ٹینکر سے پانی خریدنے پر خرچ کر رہے ہیں جب کہ امیر لوگ اپنی بورنگ کو مزید گہرا کر کے اور پانی نکال رہے ہیں۔
مگر نوراللہ اور ثناء اللہ، یہ دو کم عمر بھائی درجنوں دیگر بچوں کی طرح عوامی نکلوں پر قطاروں میں لگتے ہیں جہاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جگھڑا معمول کی بات ہے۔
نوراللہ مرگی کے مرض میں مبتلا ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ ایک بار انہیں پانی لے جاتے ہوئے راستے میں ہی دورہ پڑا تھا۔ ثناءاللہ نے ان کی بات بڑھاتے ہوئے کہا کہ کبھی کبھی ہمیں قطاروں میں تین تین گھنٹے کھڑے رہنا پڑتا ہے اور گرمی بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ جس سے اکثر ہماری حالت خراب ہوجاتی ہے۔

اسداللہ کی آمدن بھی زیادہ نہیں، اگر کام ہو تو وہ دن میں دو سے تین ڈالر کے برابر رقم ہی کما پاتے ہیں۔ اور اکثر دکان بند کر کے اپنے بچوں کے ساتھ پانی اٹھاتے بھی نظر آتے ہیں۔
ان کے بقول 'پہلے ہمیں ایک کمپنی پانی دے جاتی تھی۔ اس سے ہمارا تین، چار دن گزارا ہوجاتا تھا۔ لیکن اب وہ آپشن بھی ختم ہو گیا ہے۔'
اسد اللہ کے گھر کے صحن میں ان کی اہلیہ برتن دھونے میں مصروف تھیں اور پانی کے ایک ایک جگ کو گن کر استعمال کر رہی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر کو السر ہو گیا ہے اور وہ خود ایک ایسے انفیکشن میں مبتلا ہیں جو غیر محفوظ پانی کے استعمال سے ہوتا ہے۔
اسداللہ کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ 'میں بچوں کو پانی دینے سے پہلے دو بار ابالتی ہوں لیکن پھر بھی مشکل ہوتی ہے۔'

اسداللہ کے گھر سے چند گلیاں چھوڑ کر 52 سالہ محمد آصف ایوبی کا گھر ہے جو اس علاقے کے لوگوں کے نمائندے ہیں۔ آصف بتاتے ہیں کہ ان کے محلے میں 380 سے زیادہ گھرانے اسی مشکل کا شکار ہیں۔ زمینی پانی 400 فٹ سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔
خشک سالی اور بے ترتیب بارش کے پیٹرن نے برف پگھلنے کے عمل کو محدود کر دیا ہے جس سے کابل کے واٹر بیسن کو دوبارہ پانی ملتا تھا۔ اب سال کے بیشتر حصے میں دریا خشک رہتا ہے۔ جرمنی میں مقیم پانی کے ریسرچر نجیب اللہ صدیق نے کہا کہ "کابل ان علاقوں میں شامل ہے جہاں پانی کا بحران سب سے زیادہ ہے۔'

اسداللہ اور ان جیسے کابل کے عام شہری ان پیچیدگیوں سے تو واقف نہیں، مگر ان کی سادہ سی خواہش ہے کہ انہیں سہولت سے پانی مل جائے۔ ان کے بقول 'اگر ہمارے پاس کافی پانی ہوتا تو میرے بچے سارا دن ادھر اُدھر نہ دوڑتے، وہ اسکول جا سکتے تھے۔ ہماری پوری زندگی بدل جاتی۔'