ٹرمپ - پیوٹن گفتگو اور جیوپولیٹیکل شطرنج

11:0625/03/2025, منگل
جنرل25/03/2025, منگل
سلیمان سیفی اوئن

جب روس نے سرکاری طور پر اعلان کیا کہ وہ یوکرین کے خلاف ایک ’آپریشن‘ شروع کرے گا، تو زیادہ تر لوگوں نے سوچا کہ یوکرین ایک آسان ہدف ہوگا اور یہ جنگ جلد ختم ہو جائے گی، شاید ایک ہفتے کے اندر۔ پھر روس نے کچھ عرصہ پہلے کریمیا پر بھی اسی طرح تیزی سے قبضہ کر لیا تھا۔ پیوٹن نے اس آپریشن کے مقاصد یوں بیان کیے: دونیتسک اور لوہانسک کے علاقوں کو آزاد کرانا، جہاں روسی اقلیت آباد ہے، یوکرین سے نیو نازی گروپس کا خاتمہ کرنا اور یوکرین کو نیٹو میں شامل ہونے سے روکنا شامل ہے۔ جنگ مختلف علاقوں میں ایک ساتھ شروع ہوئی،

خبروں کی فہرست

جب روس نے سرکاری طور پر اعلان کیا کہ وہ یوکرین کے خلاف ایک ’آپریشن‘ شروع کرے گا، تو زیادہ تر لوگوں نے سوچا کہ یوکرین ایک آسان ہدف ہوگا اور یہ جنگ جلد ختم ہو جائے گی، شاید ایک ہفتے کے اندر۔ پھر روس نے کچھ عرصہ پہلے کریمیا پر بھی اسی طرح تیزی سے قبضہ کر لیا تھا۔

پیوٹن نے اس آپریشن کے مقاصد یوں بیان کیے: دونیتسک اور لوہانسک کے علاقوں کو آزاد کرانا، جہاں روسی اقلیت آباد ہے، یوکرین سے نیو نازی گروپس کا خاتمہ کرنا اور یوکرین کو نیٹو میں شامل ہونے سے روکنا شامل ہے۔ جنگ مختلف علاقوں میں ایک ساتھ شروع ہوئی، لیکن سب سے بڑا اور اہم حملہ شمالی سمت سے کیا گیا، جس کا ہدف براہ راست یوکرین کا دارالحکومت کییف تھا۔ لیکن جیسے جیسے جنگ آگے بڑھی، روسی فوج مشکلات کا شکار ہونے لگی۔ یوکرینی مزاحمت توقع سے کہیں زیادہ سخت ثابت ہوئی۔ اچانک روس نے کئی علاقوں سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا۔

جیاس کہ وہ خارکیف جیسے علاقوں سے پیچھے ہٹ گیا جنہیں اس نے قبضے میں تو لے لیا تھا مگر زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکا اور اپنی تمام تر طاقت مشرق میں یعنی دونباس کے علاقے پر مرکوز کر دی۔ وہاں اس نے بحیرہ ایزوو کے قریب ماریوپول جیسے اسٹریٹیجک مقامات پر قبضہ کر لیا۔

روس کا یوکرین کے ساتھ ایک روایتی جنگ میں الجھنا پہلے دو سالوں میں تمام توقعات کے برعکس ثابت ہوا۔ کئی ماہرین نے اس کی وجہ روسی اداروں، خاص طور پر اس کی فوج کی کمزوری کو قرار دیا۔ بعض تجزیہ کاروں کا تو یہ بھی خیال تھا کہ جنگ کے دوسرے سال میں یوکرین جو جوابی حملہ کرنے کی تیاری کر رہا تھا، جو موسم سرما کے ختم ہونے کے بعد شروع ہونا تھا، اس کی وجہ سے روس کو شکست ہو جائے گی اور وہ قبضہ کیے گئے یوکرینی علاقوں کو چھوڑنے پر مجبور ہو جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ روس نے اس حملے کو پسپا کر دیا اور آہستہ مگر منظم طریقے سے اپنی پیش قدمی جاری رکھی۔ آج کی صورتحال یہ ہے کہ روس یوکرین کے 20 فیصد علاقے پر قابض ہے۔

روس نے جو بھاری قیمت چکائی ہے، اسے دیکھتے ہوئے وہ لوگ غلط نہیں جو کہتے ہیں کہ یہ فتح درحقیقت کوئی بڑی کامیابی نہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اہم سوالات کو دوبارہ سوچا جائے۔ کیا روس، جو خود کو ایک سپر پاور کہتا ہے اور دنیا بھی اسے ایسا ہی مانتی ہے، واقعی یوکرین کے خلاف کمزور ثابت ہوا اور اپنی ساکھ کو نقصان پہنچایا؟ یوکرین، جسے مغرب کی حمایت حاصل ہونے کے باوجود سپر پاور نہیں کہا جا سکتا۔ (صرف ویگنر بغاوت یا یوکرین کی جانب سے کرُسک پر مختصر قبضہ ہی اس کے لیے ایک بڑی ہزیمت کے طور پر کافی ہے۔) اگر ایسا ہے، تو کیا تین سال میں صرف 20 فیصد یوکرین پر قبضہ کر لینا کوئی تسلی بخش کامیابی ہے؟ اور اگر روس اسے فتح کہتا ہے، تو کیا یہ ایک پائرک فتح (Pyrrhic Victory) نہیں، یعنی ایسی کامیابی جو بہت زیادہ نقصان کے بعد حاصل ہوئی ہو؟ یہ سوالات، جو خود ہی اپنے جواب دیتے ہیں، اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ روس نے جنگ تو جیتی، لیکن وسیع تناظر میں وہ ہار رہا ہے۔

سچ کہوں تو میں مانتا ہوں کہ جنگ کے دوران روسی فوج کو کئی طرح کی کمزوریاں اور مشکلات پیش آئیں، اس نے کچھ غلطیاں کیں، اور یوکرین نے جس شدت سے مزاحمت کی، وہ توقع سے زیادہ سخت ثابت ہوئی۔ لیکن تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ روس اکثر جنگوں کی خراب شروعات کرتا ہے مگر انہیں شاندار انداز میں ختم کرتا ہے۔ (نیپولین جنگیں اور دوسری جنگ عظیم اس کی واضح مثالیں ہیں، جہاں روس ابتدا میں کمزور ترین حالت میں تھا لیکن آخرکار فاتح بن کر ابھرا۔) روس نے، چاہے وقتی طور پر اپنی ساکھ کھو بھی دی ہو، دانستہ طور پر ایک کم شدت والی جنگ چُنی، تاکہ طویل مدتی فوائد حاصل کیے جا سکیں۔ اس نے اپنی پوری فوجی صلاحیت کے مطابق نہیں بلکہ کہیں کم شدت سے جنگ لڑی۔

روس مغرب کے اندر بڑھتی ہوئی دراڑوں سے بخوبی واقف تھا۔ غور کریں: روس بہت پہلے سے سمجھ چکا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد وجود میں آنے والا نظام، جو شمالی امریکہ اور یورپ کو جوڑتا تھا، کمزور ہو رہا ہے۔ ڈیٹنٹے (کشیدگی میں نرمی) کے دوران، روس نے آہستہ آہستہ یورپ، خاص طور پر جرمنی، کو توانائی اور دیگر شعبوں کے ذریعے اپنی طرف مائل کر لیا تھا۔ لیکن سوویت یونین کے خاتمے اور مشرقی یورپ کے ہاتھ سے نکل جانے نے اس عمل کو روک دیا، کیونکہ نیٹو کے مدِمقابل وارسا معاہدہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔

روسی تاریخی اور سیاسی نظریات (جدلیات) کو سمجھتے ہیں، یعنی وہ یہ مانتے ہیں کہ اگر ایک طاقتور فوجی اتحاد (وارسا معاہدہ) ختم ہو چکا ہے، تو اس کے مدِمقابل نیٹو بھی زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکتا۔ لیکن اس کے لیے صبر درکار تھا۔ روس نے بغور دیکھا کہ امریکہ اور یورپ کے درمیان دراڑیں مزید گہری ہو رہی ہیں۔ اسے معلوم تھا کہ نیٹو کے خاتمے اور سرد جنگ کے مکمل اختتام کا اصل راستہ اسی خلیج کو مزید وسیع کرنا تھا۔ شاید پیوٹن نے کریملن میں بیٹھ کر ہنستے ہوئے میکرون کے الفاظ سنے ہوں کہ ’نیٹو دماغی موت کا شکار ہو رہا ہے۔‘

پھر بائیڈن اور ان کی جماعت (ڈیموکریٹس) نے روس کے خلاف جنگ کو ایک موقع کے طور پر استعمال کیا تاکہ نیٹو کو دوبارہ فعال اور مضبوط بنایا جا سکے۔ انہوں نے یوکرین میں موجود قوم پرست گروہوں کو روس کے خلاف کھڑا کیا اور جنگ کو مزید بھڑکایا، تاکہ روس کو اشتعال دلا کر ایک بڑا تنازع کھڑا کیا جا سکے۔ اس حکمت عملی کا بظاہر یہ فائدہ ہوا کہ نیٹو، جو کمزور ہو رہا تھا، دوبارہ متحرک ہو گیا۔ امریکہ اور یورپ، جو کچھ عرصے سے اندرونی اختلافات کا شکار تھے، ایک بار پھر متحد ہو گئے، اور سویڈن اور فن لینڈ جیسے نئے ممالک نیٹو میں شامل ہو گئے، جس سے اتحاد کو مزید تقویت ملی۔ لیکن روسی قیادت نے اسے نیٹو کی آخری کوشش سمجھا، جیسے زوال پذیر ادارے آخری وقت میں سب سے زیادہ متحرک نظر آتے ہیں۔ روس نے کیا کیا؟ ایک محتاط، کم شدت والی جنگ چُنی تاکہ نیٹو کو مزید طاقتور ہونے کا موقع نہ ملے۔

دوسری طرف کریملن کو نظر آ رہا تھا کہ ٹرمپ کی واپسی ممکن ہے اور اگر وہ اقتدار میں آئے، تو وہ خود نیٹو کا خاتمہ کر دیں گے۔ (جیسا کہ صدر اردوآن نے کہا کہ ’یہ نظام بنانے والے ہی اب اسے توڑ رہے ہیں۔‘) پیوٹن صرف ایک جنگ نہیں لڑ رہا تھا، بلکہ وہ ایک بڑی تصویر دیکھ رہے تھے—ایک ایسی دنیا جہاں نیٹو کا وجود ختم ہو چکا ہو اور روس ایک نئی عالمی طاقت کے طور پر اپنی جگہ بنا چکا ہو۔ یہی ایک کامیاب ریاستی حکمت عملی کی نشانی ہوتی ہے: وقتی فوائد کو قربان کر کے طویل مدتی جیت پر نظر رکھنا اور بعض اوقات اس راہ میں بہنے والا خون بھی حکمتِ عملی کا حصہ بن جاتا ہے۔




#روس یوکرین جنگ
#امریکا
#ڈونلڈ ٹرمپ