نیتن یاہو کے غزہ پر مکمل قبضے کے منصوبے پر ملک کے اندر سے مخالفت، ٹرمپ نے معاملہ اسرائیل پر چھوڑ دیا

10:556/08/2025, بدھ
ویب ڈیسک
اقوامِ متحدہ کے مطابق غزہ کے 87 فی صد علاقے پر اسرائیلی فوج کا کنٹرول ہے یا پھر ان علاقوں میں انخلا کے احکامات ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق غزہ کے 87 فی صد علاقے پر اسرائیلی فوج کا کنٹرول ہے یا پھر ان علاقوں میں انخلا کے احکامات ہیں۔

رپورٹس کے مطابق منگل کو اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو اور کچھ وزرا سے ملاقات کے دوران اسرائیلی فوج کے سربراہ نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر اسرائیل غزہ پر مکمل قبضہ کرتا ہے تو فوج پر دباؤ بڑھے گا اور باقی یرغمالوں کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑ جائیں گی۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے غزہ پر مکمل قبضے کے منصوبے پر کوئی ردعمل دینے کے بجائے فیصلہ اسی پر چھوڑ دیا ہے۔ دوسری جانب وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے غزہ پر مکمل قبضے کے مبینہ منصوبے پر اسرائیل کے اندر سے ہی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

منگل کو صدر ٹرمپ سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا وہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کو مکمل قبضے میں لینے کی حمایت کریں گے؟ جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں معلوم کہ اس بارے میں کیا تجویز دی گئی ہے۔ میں یہ جانتا ہوں کہ ہم ابھی وہاں لوگوں کو کھانا پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ غزہ میں لوگوں کو کھانا نہیں مل رہا اور اسرائیل امدادی سامان کی ترسیل اور اس کے لیے درکار مالی وسائل میں ہماری مدد کرے گا۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ میری پوری توجہ اسی چیز پر ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی معاملہ ہے، میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہ اسرائیل پر ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے۔

اسرائیل کے اندر سے مخالفت کی آوازیں

اقوامِ متحدہ کے مطابق غزہ کے 87 فیصد حصے پر یا تو اسرائیلی فوج کا کنٹرول ہے یا پھر وہاں سے انخلا کے احکامات ہیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کا کنٹرول غزہ کے 75 فیصد علاقے پر ہے۔

مگر منگل کو اسرائیلی میڈیا میں یہ خبریں رپورٹ ہوئی ہیں کہ وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو پورے غزہ کو کنٹرول کرنے کا پلان بنا رہے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق اسرائیلی وزیرِ اعظم پورے غزہ کو اسرائیلی کنٹرول میں لینا چاہتے ہیں اور ان علاقوں میں بھی اسرائیلی فوج کو بھیجنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں جہاں 20 لاکھ فلسطینی انتہائی خراب حالات میں رہ رہے ہیں۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم کے اس منصوبے کے خلاف ملک کے اندر سے ہی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج میں بھی اس منصوبے کی مخالفت پائی جاتی ہے۔

رپورٹس کے مطابق منگل کو اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو اور کچھ وزرا سے ملاقات کے دوران اسرائیلی فوج کے سربراہ نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر اسرائیل غزہ پر مکمل قبضہ کرتا ہے تو فوج پر دباؤ بڑھے گا اور باقی یرغمالوں کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑ جائیں گی۔

رپورٹس کے مطابق کئی دیگر فوجی اور انٹیلی جینس افسران غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے ذریعے یرغمالوں کو نکالنے کے حامی ہیں۔

بی بی سی کے مطابق ایک مقامی صحافی نے ایک اعلیٰ عہدے دار کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ اگر فوجی سربراہ کے لیے یہ منصوبہ قابلِ قبول نہ ہوا تو ہوسکتا ہے کہ وہ مستعفی ہو جائیں۔

اس منصوبے کی مخالفت کرنے والوں میں اسرائیل کی سیکیورٹی سروس بن شیت اور خفیہ ایجنسی موساد کے سابق لیڈرز اور فوجی افسران کے علاوہ اسرائیل کے سابق وزیرِ اعظم ایہود براک بھی شامل ہیں۔

سوشل میڈیا پر جاری ایک ویڈیو میں ان سابق عہدے داروں نے کہا ہے کہ انتہائی دائیں بازو کے حکومتی اراکین نے اسرائیل کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔

شن بیت کے سابق سربراہ نے اہنے بیان میں نیتن یاہو کے غزہ کے لیے عزائم کو خام خیالی قرار دیا ہے۔ ان کے بقول اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ ہم ہر دہشت گرد، ان کے ہر ٹھکانے اور ہر ہتھیار تک پہنچ جائیں گے اور ساتھ ہی اپنے یرغمالوں کو واپس لانے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے تو یہ ناممکن ہے۔

اقوامِ متحدہ کے عہدے دار کا بیان

اقوامِ متحدہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل نے نیتن یاہو کے غزہ پر مکمل قبضے کے مبینہ منصوبے کو انتہائی تشویش ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے مزید فلسطینیوں اور اسرائیلی یرغمالوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ غزہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کا لازمی حصہ رہنا چاہیے۔

##غزہ
##اسرائیل
##نیتن یاہو