
اسرائیل پر کافی عرصے سے غزہ میں نسل کشی کے الزامات لگ رہے ہیں جن کی وہ تردید کرتا آیاہے۔ مگر خود اسرائیلی تنظیموں کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو اب تک کا سب سے سخت اور سنگین الزام قرار دیا جا رہا ہے۔
اسرائیل میں انسانی حقوق کی دو تنظیموں نے اپنے ملک کو غزہ میں نسل کشی کا مرتکب قرار دے دیا ہے۔
’بتسیلم‘ اور ’فزیشنز فور ہیومن رائٹس اسرائیل‘ نامی دو تنظیموں نے پیر کو یروشلم میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے رپورٹس جاری کیں۔ ان رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینی سوسائٹی کو تباہ کرنے کے لیے منظم اور جان بوجھ کر کارروائی کر رہا ہے۔
اسرائیل پر کافی عرصے سے غزہ میں نسل کشی کے الزامات لگ رہے ہیں جن کی وہ تردید کرتا ہے۔ مگر خود اسرائیلی تنظیموں کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو اب تک کا سب سے سخت اور سنگین الزام قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ واضح رہے کہ ’نسل کشی‘ کا الزام اسرائیل کے لیے خاص طور پر حساس معاملہ ہے۔ کیوں کہ یہ اصطلاح نازی ہولوکاسٹ کے بعد یہودی قانونی ماہرین کی تحقیق سے سامنے آئی تھی۔ اسرائیلی حکام نے نسل کشی کے حالیہ الزامات کو یہ کہہ کر رد کر دیا ہے کہ یہ ’یہود دشمنی‘ پر مبنی ہیں۔
اسرائیلی حکومت کے ترجمان ڈیوڈ مینسر نے ان رپورٹس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل میں بولنے کی آزادی ہے۔ انہوں نے رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ الزامات دنیا میں یہود دشمنی کو فروغ دیتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم بتسیلم کے انٹرنیشنل ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ اسرائیل کے خلاف اس دعوے کی وجہ سے انہیں خدشہ ہے کہ ان پر حملے ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تمام خطرات کو دیکھ کر یہ بات کی ہے۔
ان کے بقول ہم پر پہلے بھی اسرائیلی حکومت اور سوشل میڈیا کی جانب سے حملے ہوتے رہے ہیں تو یہ صورتِ حال ہمارے لیے نئی نہیں ہے۔
اسرائیل کا مؤقف ہے کہ وہ غزہ میں حملے اپنے دفاع میں کر رہا ہے اور وہ ہلاکتوں کا الزام حماس پر لگاتا ہے کہ وہ شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ حماس اس کی تردید کرتی ہے۔