روسی تیل اور ٹیرف جنگ: مودی اور ٹرمپ کے تعلقات ’دوستی‘ سے ’دوری اور سردمہری‘ تک کیسے پہنچے؟

15:236/08/2025, بدھ
جنرل6/08/2025, بدھ
ویب ڈیسک
مودی اور ٹرمپ کے تعلقات ’دوستی‘ سے ’دوری اور سردمہری‘ تک کیسے پہنچے؟
تصویر : سوشل / فائل
مودی اور ٹرمپ کے تعلقات ’دوستی‘ سے ’دوری اور سردمہری‘ تک کیسے پہنچے؟

کبھی گلے ملتے، ایک دوسرے کے لیے تعریفوں کے پُل باندھے اور عوامی جلسوں میں ایک ساتھ نظر آنے والے مودی اور ٹرمپ، جن کی دوستی کے بارے میں کبھی عالمی سطح پر گُن گائے جاتے آج دونوں رہنماوٴں کے درمیان بڑھتا فاصلہ نیا منظر نامہ پیش کررہا ہے۔

ٹرمپ کے تجارتی ٹیکس، انڈیا کی روس سے تیل کی خریداری اور امریکہ کی پاکستان کی طرف جھکاؤ جیسے عوامل نے دہلی اور واشنگٹن کے رشتے میں دراڑ ڈال دی ہے۔

یہ تمام صورتِ حال دیکھ کر پالیسی ماہرین سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ کہیں مودی اور ٹرمپ کے درمیان جو دوستی یا قریبی تعلق تھا، وہ اب ماضی کا قصہ تو نہیں بن چکا؟ حالانکہ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر مودی کا نام براہِ راست نہیں لیا، لیکن ان کے رویے میں واضح تبدیلی نظر آتی ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے تعلقات میں آنے والی یہ سردمہری انڈیا اور امریکہ کے درمیان کئی دہائیوں سے قائم اسٹریٹیجک شراکت داری کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

انڈیا کی وزارت خارجہ کے سابق پالیسی مشیر اشوک ملک نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ’نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان یہ تعلقات ایک آزمائشی وقت ہے‘۔

تجارت کے ماہر پروفیسر بسواجیت دھر نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’انڈیا-امریکہ تعلقات کئی دہائیوں کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔‘


یہ بھی پڑھیں:

تجارت اور ٹیرف کے حوالے سے بڑھتی ہوئی کشیدگی

انڈیا اور امریکہ کے درمیان تازہ ترین تناؤ اُس وقت سامنے آیا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے پچھلے ہفتے اعلان کیا کہ وہ انڈیا پر 25 فیصد ٹیکس عائد کر رہے ہیں، ساتھ ہی روسی تیل کی خریداری کی وجہ سے مزید ٹیرف عائد کریں گے۔ نئی دہلی کے لیے امریکہ کا یہ قدم مختلف شعبوں پر اثر ڈال سکتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی انڈیا میں ایک بے چینی کی فضا بھی پیدا ہو گئی خاص طور پر جب ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر انڈیا کی معیشت کو ’مردہ‘ قرار دیا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے رپورٹ کیا کہ وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار کے مطابق ٹرمپ انڈیا کے ساتھ تجارتی مذاکرات میں سست روی سے ناخوش تھے اس لیے وہ ایسے بیانات دے رہے ہیں۔ اُن کے مطابق ریپبلکن صدر پاکستان کے ساتھ کسی اسٹریٹجک تبدیلی کی کوشش نہیں کر رہے بلکہ تجارتی مذاکرات میں سخت مؤقف اختیار کیے ہوئے ہیں۔

پیر کے روز ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر ایک اور پوسٹ میں انڈیا پر دباؤ بڑھاتے ہوئے الزام لگایا کہ انڈیا ’روس سے بڑے پیمانے پر تیل خرید رہا ہے اور پھر اُسے اوپن مارکیٹ میں بھاری منافع پر فروخت کر رہا ہے۔‘

ٹرمپ نے کہا کہ ’انڈیا کوکوئی پرواہ نہیں کہ روسی جنگی مشین یوکرین میں کتنے لوگوں کو مار رہی ہے۔ اسی وجہ سے میں انڈیا پر ٹیرف کو بہت زیادہ بڑھاؤں گا۔‘

یہ بیان انڈین حکومت کو کافی ناگوار گزرا ہے۔ مودی حکومت ٹرمپ کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی، جہاں ایک طرف انڈیا چاہ رہا تھا کہ ملک میں باہر کی چیزیں کم آئیں اور دوسری طرف امریکہ کو خوش کرنے کے لیے کچھ امریکی چیزوں کو انڈیا میں بیچنے کی اجازت بھی دینا چاہ رہے تھے۔

امریکی مشاورتی کمپنی ’ایشیا گروپ‘ کے انڈیا چیپٹر کے سربراہ اشوک ملک کہتے ہیں کہ ’دونوں ملکوں کے دارالحکومتوں میں پچھلے 25 سالوں سے کی جانے والی مسلسل اور مشترکہ کوششیں صرف ٹیکس ہی نہیں بلکہ ان غیر ذمہ دارانہ بیانات اور سوشل میڈیا پوسٹس کی وجہ سے خطرے میں پڑ گئی ہیں‘۔

وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا نے امریکہ کو جو تجارتی معاہدہ پیش کیا ہے، وہ انڈیا کی تاریخ کا سب سے بڑا معاہدہ ہے‘۔

ان کا اشارہ اُن خبروں کی طرف تھا جن کے مطابق انڈیا کچھ امریکی زرعی (کھانے پینے کی) اشیاء کو اپنے ملک میں آنے کی اجازت دینے کو تیار ہے۔

یہ مودی کے لیے ایک سیاسی طور پر نازک مسئلہ ہے، کیونکہ کچھ سال پہلے انہیں کسانوں کے ایک سال طویل احتجاج کا سامنا کرنا پڑا تھا۔


یہ بھی پڑھیں:

’ٹرمپ کا جھکاؤ پاکستان کی طرف محسوس ہو رہا ہے‘

اگرچہ یہ کشیدگی تجارتی ٹریف پر شروع ہوئی، لیکن حالات کافی عرصے سے کشیدہ تھے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ پاکستان کے ساتھ قریب آ رہے ہیں، جو انڈیا کا ہمسایہ اور ایٹمی حریف ہے۔

مئی میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشمیری علاقے پہلگام حملے کی وجہ سے فائرنگ اور گولہ باری کا تبادلہ ہوا تھا۔ انڈیا نے پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر لگایا، لیکن پاکستان نے انکار کر دیا۔ چار دن جاری رہنے والی اس جھڑپ سے دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا اوریہ لڑائی صرف عالمی طاقتوں کی مداخلت سے رُکی۔

لیکن مودی حکومت اُس وقت مشکل میں پڑ گئی جب ٹرمپ نے کشمیر کے معاملے پر ثالثی کی پیشکش کی اور کہا کہ وہ اس مسئلے کا ’حل‘ نکالنا چاہتے ہیں۔ اُس کے بعد ٹرمپ تقریباً دو درجن بار یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ انہوں نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان سیز فائر کروایا۔

مودی کے لیے یہ صورتحال کافی نازک اور پریشان کن ہے۔ اپنے ملک میں وہ خود کو ایسا لیڈر دکھاتے ہیں جو پاکستان کے معاملے پر سخت مؤقف رکھتا ہے اور بین الاقوامی سطح پر وہ پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس لیے ٹرمپ کے ثالثی کے دعوے نے انڈیا کو سخت مشکل میں ڈال دیا ہے اور انڈیا میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ شاید اب امریکا ان کا اسٹریٹجک اتحادی نہیں رہا۔

انڈیا کا مؤقف ہے کہ کشمیر ان کا اندرونی معاملہ ہے اور وہ کسی تیسرے فریق کی مداخلت کو نہیں مانتا۔ پچھلے ہفتے، جب انڈیا کی اپوزیشن نے مودی سے سوالات کرنے شروع کیے، تو مودی نے ٹرمپ کے دعوے کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ ’دنیا کے کسی ملک نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان لڑائی نہیں روکی‘ لیکن انہوں نے ٹرمپ کا نام نہیں لیا۔

دوسری طرف ٹرمپ پاکستان کے قریب آتے دکھائی دیے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف کوششوں کی تعریف بھی کی ہے۔ انڈیا پر ٹیکس لگانے کے چند گھنٹوں بعد ہی ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ تیل کی تلاش کا ایک بڑا معاہدہ کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ’شاید ایک دن انڈیا کو پاکستان سے تیل خریدنا پڑ سکتا ہے‘۔ اس سے پہلے بھی وہ پاکستان کے آرمی چیف کو وائٹ ہاوٴس میں دعوت دے چکے ہیں۔

نئی دہلی کی جندل اسکول آف انٹرنیشنل افیئرز کے ماہر سری رام سندر چاولیا کہتے ہیں کہ ٹرمپ کی طرف سے اچانک پاکستان کو دہشتگردی کے خلاف ’بہترین ساتھی‘ قرار دینا انڈیا میں لوگوں کو بُرا لگا ہے۔

چاولیا کہتے ہیں کہ ’بہترین صورت یہی ہو سکتی ہے کہ یہ ٹرمپ کا ایک وقتی موڈ ہو‘، لیکن انہوں نے خبردار بھی کیا کہ ’اگر واقعی امریکہ اور پاکستان کے درمیان مالیاتی اور توانائی (تیل و گیس) کے معاہدے ہو رہے ہیں، تو اس سے امریکہ اور انڈیا کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری کو نقصان پہنچے گا اور انڈیا میں لوگ امریکہ پر اعتماد کھو بیٹھیں گے۔‘


یہ بھی پڑھیں:

’روس سے انڈیا کی تیل خریداری ایک مسئلہ بن گئی ہے‘

انڈیا اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی کی ایک بڑی وجہ تیل بھی ہے۔

جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو شروع کے مہینوں میں بائیڈن انتظامیہ نے انڈیا پر دباؤ ڈالا کہ وہ روس سے تیل خریدنا بند کرے۔ لیکن انڈیا نے الٹا روس سے تیل کی خریداری بڑھا دی اور وہ چائنہ کے بعد روسی تیل خریدنے والا دوسرا بڑا ملک بن گیا۔

وقت کے ساتھ امریکہ نے اس دباؤ کو کم کیا اور چائنہ کے مقابلے میں انڈیا کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات بنانے پر توجہ دی۔لیکن اب جب ٹرمپ نے انڈیا کو روسی تیل خریدنے پر ٹیرف کی دھمکی دی، تو یہ پرانا معاملہ پھر سے تازہ ہو گیا۔

اتوار کو ٹرمپ کی انتظامیہ نے انڈیا اور روس کے تعلقات پر اپنی ناراضگی کھل کر ظاہر کی۔

وائٹ ہاؤس کے نائب چیف آف اسٹاف اسٹیفن ملر نے انڈیا پر الزام لگایا کہ وہ روس سے تیل خرید کر یوکرین میں جنگ کے لیے روس کو پیسہ دے رہا ہے اور کہا کہ یہ ’ناقابلِ قبول‘ ہے۔

اس کے اگلے دن، پیر کو ٹرمپ نے ایک اور سوشل میڈیا پوسٹ میں انڈیا پر مزید ٹیکس لگانے کی دھمکی دی۔

انہوں نے لکھا کہ ’انڈیا نہ صرف روس سے بہت زیادہ تیل خرید رہا ہے بلکہ اس تیل کا بڑا حصہ اوپن مارکیٹ میں منافع کے لیے دوبارہ بیچ رہا ہے۔ انہیں پرواہ نہیں کہ روسی جنگی مشین یوکرین میں کتنے لوگوں کو مار رہی ہے۔‘

تاہم کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ صرف دباؤ ڈالنے کی پالیسی اپنا رہے ہیں۔ چاولیا کہتے ہیں کہ ’ٹرمپ کی پالیسیوں میں جو اتار چڑھاؤ ہوتا ہے، اُسے دیکھتے ہوئے ممکن ہے کہ حالات دوبارہ گلے ملنے اور مسکراہٹوں تک پہنچ جائیں۔‘


انڈیا کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا۔

لوگوں کو توقع تھی کہ ٹرمپ کی جانب سے ٹیرف کی دھمکیوں پر انڈیا سخت ردعمل دے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ انڈیا کے وزیرِ تجارت پیوش گوئل نے محتاط انداز اپناتے ہوئے کہا کہ انڈیا اور امریکہ ایک ایسے تجارتی معاہدے پر کام کر رہے ہیں جو دونوں کے لیے برابر کا فائدہ دے اور منصفانہ ہو۔

شروع میں انڈیا کی وزارتِ خارجہ نے بھی کشیدگی کے کسی بڑے امکان کو کم اہمیت دی۔ لیکن پیر کی رات ایک بیان میں ٹرمپ کی تنقید کو ’غیرمنصفانہ اور غیر مناسب‘ قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ انڈیا ’اپنے قومی مفادات اور معاشی تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔‘

بیان میں کہا گیا کہ انڈیا نے روس سے تیل اس لیے خریدنا شروع کیا کیونکہ یوکرین جنگ کے بعد روایتی سپلائیز (یعنی پرانے ذرائع) یورپ کی طرف منتقل ہو گئیں، اس لیے عالمی حالات نے انڈیا کو مجبور کیا کہ وہ روس سے تیل خریدے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ خود امریکہ بھی روس کے ساتھ تجارت کر رہا ہے۔ ’یہ حقیقت قابلِ غور ہے کہ وہی ممالک جو انڈیا پر تنقید کر رہے ہیں، خود روس سے تجارت کر رہے ہیں‘


(یہ تحریر ایسوسی ایٹڈ پریس اور الجزیرہ سے لی گئی ہے)

#انڈیا
#امریکا
#ڈونلڈ ٹرمپ
#ٹیرف
#تجارت