
سابق اسرائیلی انٹیلی جنس سربراہان سمیت 600 ریٹائرڈ سیکیورٹی افسران نے امریکی صدر ٹرمپ کو خط میں اسرائیل پر جنگ ختم کرنے کے لیے دباوٴ بڑھانے کا کہا۔
اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سابق سربراہان سمیت تقریباً 600 ریٹائرڈ سیکیورٹی افسران کے ایک گروپ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خط لکھا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ فوری ختم کرنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالیں۔
اسرائیلی افسران نے خط میں لکھا کہ ’ہماری پروفیشنل رائے ہے کہ حماس اب اسرائیل کے لیے کوئی اسٹریٹیجک خطرہ نہیں رہی۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ’اسرائیلی عوام آپ پر اعتماد کرتے ہیں، اس لیے آپ نیتن یاہو اور ان کی حکومت کو صحیح راستے پر لا سکتے ہیں، جنگ روکیں، یرغمالیوں کو واپس لائیں اور لوگوں کی تکلیف ختم کریں۔‘
یہ اپیل ایسے وقت سامنے آئی ہے جب اطلاعات کے مطابق نیتن یاہو غزہ میں فوجی کارروائیوں میں توسیع کا ارادہ رکھتے ہیں، جبکہ حماس کے ساتھ سیز فائر مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔
اس وقت اسرائیلی پابندیوں کے باعث غزہ میں خوراک، دوا اور بنیادی سہولیات کی شدید قلت ہے۔ وزارت صحت کے مطابق جنگ کے آغاز سے اب تک 180 افراد، جن میں 93 بچے شامل ہیں، بھوک اور غذائی قلت کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ اداروں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں ’قحط کی بدترین صورتحال حقیقت بن رہا ہے۔‘
یہ اپیل ان ویڈیوز کے بعد سامنے آئی ہے جن میں دو اسرائیلی یرغمالیوں کو شدید کمزوری کی حالت میں دکھایا گیا۔ یہ ویڈیوز حماس اور اسلامی جہاد کے جنگجوؤں نے جاری کی تھیں۔
غزہ میں ممکنہ نئی جنگ اتحادیوں کو مزید ناراض کر سکتی ہے، جو پہلے ہی فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں، کیونکہ بھوک اور غذائی قلت سے فلسطینیوں کی اموات کی خبریں دنیا بھر میں صدمے کا باعث بن رہی ہیں۔
یرغمالیوں کے اہل خانہ کی حمایت کرنے والے ایک گروپ نے نئی فوجی کارروائی کے امکان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’نیتن یاہو اسرائیل اور یرغمالیوں دونوں کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔‘
یہی مؤقف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو لکھے گئے خط میں سابق موساد چیف تمیر پاردو، سابق شِن بیت سربراہ امی آیالون، سابق وزیرِاعظم ایہود باراک اور سابق وزیر دفاع موشے یعلون سمیت دیگر رہنماؤں نے بھی واضح انداز میں پیش کیا۔
امی آیالون نے کہا کہ ’شروع میں یہ جنگ جائز اور دفاعی تھی، لیکن جب ہم نے اپنے تمام فوجی مقاصد حاصل کر لیے، تو یہ جنگ اب جائز نہیں رہی۔‘