
ترکیہ کے جنوب مشرقی گلیشیئر تیزی سے پگھلنے لگے، پانی کی فراہمی اور مقامی سیاحت خطرے میں۔۔۔
کمال اوزدمیر نے ترکیہ کے جنوب مشرق میں واقع ماؤنٹ سیلو کی چوٹیوں کی طرف دیکھا اور کہا کہ ’یہاں دس سال پہلے برف کے گلیشیئر ہوا کرتے تھے۔‘
کمال اوزدمیر پچھلے 15 سال سے ماوٴنٹین گائیڈ کے طور پر کام کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صرف دس سال میں یہاں کی برف بہت کم ہو گئی ہے۔
انہوں نے ایک پہاڑی ڈھلان کی طرف اشارہ کیا جہاں پانی کے ساتھ برف کے کئی بڑے ٹکڑے بہہ رہے تھے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، اور اس کی وجہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ پانی میں برف کے کافی ٹکڑے ہیں۔ واٹر فال جس زور سے بہہ رہا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ برف کتنی تیزی سے پگھل رہی ہے۔‘
یہ سب موسمیاتی تبدیلی (گلوبل وارمنگ) کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ ماؤنٹ سیلو کے گلیشیئر ترکیہ میں سب سے بڑے گلیشیئروں میں دوسرے نمبر پر آتے ہیں۔ سب سے بڑے گلیشیئر ماؤنٹ آرارات پر ہیں، جو ماؤنٹ سیلو سے 250 کلومیٹر (یعنی 155 میل) شمال کی طرف واقع ہے۔
جیسے جیسے دنیا بھر میں انسانوں کی اپنین غلطیوں کی وجہ سے موسم گرم ہو رہا ہے، پہاڑوں کی وہ جگہیں جہاں پہلے برف جمی ہوتی تھی، اب ہر سال تیزی سے پگھل رہی ہیں۔
ترکیہ بھی شدید گرمی، خشک سالی اور جنگلات میں آگ جیسے حالات کا سامنا کر رہا ہے۔ حال ہی میں سیلوپی نامی علاقے میں درجہ حرارت 50.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا، جو کہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔
ترکیہ کے شہر وان میں یوزنجو یل یونیورسٹی کے پروفیسر اونور ساتر کہتے ہیں کہ ’برف پگھلنے کا عمل ہماری توقع سے زیادہ تیز ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق پچھلے 40 سالوں میں اس علاقے کی تقریباً آدھی برف ختم ہو چکی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ جگہوں کی برف دوسری جگہوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پگھل رہی ہے۔ اس سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ کن علاقوں کو بچانا ضروری ہے، لیکن ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ہم پوری برف کو ڈھانپ سکیں۔‘
حالیہ برسوں میں یورپ کے الپس پہاڑوں میں کچھ گلیشیئرز کو بچانے کے لیے ان پر سفید چادریں ڈالی گئی ہیں تاکہ وہ جلدی نہ پگھلیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کے کئی علاقوں کے گلیشیئرز اس صدی کے آخر تک باقی نہیں رہیں گے اور اس سے کروڑوں لوگوں کے پانی کا ذریعہ خطرے میں پڑ جائے گا۔






