
اقوامِ متحدہ کی مہاجرین کی ایجنسی کے مطابق یمن کے ساحل کے قریب ایک کشتی الٹنے کے واقعے میں 68 افریقی پناہ گزین اور مہاجرین ہلاک ہو گئے ہیں، جبکہ 74 افراد تاحال لاپتہ ہیں۔
یمن میں اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائگریشن کے سربراہ عبدالصتور ایسوئیف نے اتوار کے کو بتایا کہ کشتی میں 154 ایتھوپین شہری سوار تھے، جو یمن کے صوبہ ابین کے ساحل کے قریب ڈوب گئی۔
کشتی حادثے میں 12 افراد زندہ بچ گئے، جبکہ 54 پناہ گزینوں اور مہاجرین کی لاشیں خانفر ضلع کے ساحل پر ملیں اور 14 مزید افراد کی لاشیں ایک اور مقام سے ملی ہیں جنہیں اسپتال کے مردہ خانے منتقل کر دیا گیا ہے۔
محکمہ صحت کے ڈائریکٹر عبدالقادر باجمیل نے بتایا کہ حکام متاثرین کی تدفین کے انتظامات کر رہے ہیں، جبکہ خراب حالات کے باوجود لاپتہ افراد کی تلاش جاری ہے۔
یمن اور افریقہ کے ہورن کے درمیان آبی راستے مہاجرین اور پناہ گزینوں کے لیے عام مگر خطرناک گزرگاہیں سمجھی جاتی ہیں۔ 2014 میں یمن میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد اس راستے سے یمنی شہریوں کی نقل مکانی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
حوثی باغیوں اور یمنی حکومت کے درمیان اپریل 2022 میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا، جس کے بعد ملک میں تشدد میں کمی آئی اور انسانی بحران میں بھی تھوڑا بہت بہتری دیکھنے کو ملی۔
ادھر افریقہ، خاص طور پر صومالیہ اور ایتھوپیا سے جنگ سے بچنے والے کچھ لوگ یمن میں پناہ لیتے ہیں یا وہاں سے گزر کر امیر خلیجی ممالک جانا چاہتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مائگریشن کے مطابق یہ راستہ دنیا کے ’مصروف ترین اور خطرناک ترین‘ ہجرت کے راستوں میں سے ایک ہے۔
یمن پہنچنے کے لیے لوگ اکثر اسمگلروں کے ذریعے خطرناک اور بھری ہوئی کشتیوں میں بحیرہ احمر یا خلیج عدن عبور کرتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ کے مطابق 2024 میں 60 ہزار سے زائد پناہ گزین اور مہاجرین یمن پہنچے، جو پچھلے سال کے 97 ہزار 200 کے مقابلے میں واضح کمی ہے۔
مئی میں جاری ایک رپورٹ کے مطابق یمن آنے والے افراد کی تعداد میں کمی کی ایک وجہ سمندری علاقوں میں نگرانی میں اضافہ ہے۔
یہ راستہ بہت زیادہ خطرناک ہے، جس نے گزشتہ دو سالوں میں سیکڑوں جانیں لے لی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صرف گزشتہ سال اس راستے پر 558 افراد ہلاک ہوئے۔
گزشتہ دہائی میں کم از کم 2 ہزار 82 افراد اس راستے پر لاپتہ ہوئے، جن میں سے 693 افراد کے ڈوبنے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ فی الحال یمن میں تقریباً 3 لاکھ 80 ہزار پناہ گزین اور مہاجرین موجود ہیں۔