
تھائی لینڈ کی فوج نے کمبوڈیا کی افواج پر متنازع سرحد پر تین مختلف مقامات پر سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر جارحیت جاری رہی تو تھائی افواج کو ’فیصلہ کن جواب‘ دینا پڑ سکتا ہے۔
خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق یہ الزامات دونوں حکومتوں کے درمیان ملیشیا کی ثالثی میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے صرف دو دن بعد سامنے آئے ہیں، جو پیر اور منگل کی درمیانی شب سے نافذ العمل ہوا تھا۔
یہ جنگ بندی گزشتہ ایک دہائی کے دوران دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے شدید ترین تنازع کو ختم کرنے کی کوششوں کا نتیجہ تھی، جس کے دوران پانچ دن کی شدید جھڑپوں میں کم از کم 43 افراد ہلاک اور دونوں جانب 3 لاکھ سے زائد شہری بے گھر ہو چکے ہیں۔
یہ جنگ بندی ملیشین وزیر اعظم انور ابراہیم اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں ممکن ہوئی۔ ٹرمپ نے تھائی اور کمبوڈین رہنماؤں کو خبردار کیا تھا کہ اگر لڑائی جاری رہی تو امریکہ کے ساتھ تجارتی مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔
تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کی برآمدات پر امریکہ میں 36 فیصد ٹیرف عائد ہے۔ اس میں کمی کی کوئی بھی بات چیت امن کی بحالی سے مشروط ہے۔
جنگ بندی کے بعد ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہوں نے دونوں رہنماؤں سے بات کی ہے اور اپنے تجارتی وفد کو ٹیرف مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی ہدایت دی ہے۔
بدھ کے روز تھائی لینڈ نے الزام لگایا کہ کمبوڈین فورسز نے شمال مشرقی تھائی لینڈ کے صوبہ سیساکیٹ میں واقع سرحدی چوکیوں پر چھوٹے ہتھیاروں اور گرینیڈ لانچرز سے فائرنگ کی۔
تھائی فوج کے ترجمان میجر جنرل ونتھائی سوارے نے صحافیوں کو بتایا کہ ’کمبوڈین فورسز کی جانب سے چھوٹے ہتھیاروں اور گرینیڈ لانچرز کا استعمال کیا گیا، جس پر تھائی لینڈ نے اپنے دفاع میں جوابی کارروائی کی‘۔
کمبوڈیا نے یہ الزامات مسترد کر دیے ہیں اور کہا ہے کہ وہ جنگ بندی پر عمل کر رہا ہے۔ اس نے مطالبہ کیا ہے کہ صورتحال کو جانچنے کے لیے آزاد مبصرین کو بھیجا جائے۔
کمبوڈیائی وزارت خارجہ کے ترجمان چم سونری نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’کمبوڈیا جنگ بندی کی خلاف ورزی کے الزامات کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔ یہ الزامات بے بنیاد، گمراہ کن اور اعتماد قائم کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
معاہدے کے تحت فوجی نقل و حرکت پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے اور 4 اگست کو کمبوڈیا میں وزرائے دفاع سمیت اعلیٰ سطحی عسکری ملاقات طے ہے۔
اب تک بھاری توپ خانے کے استعمال کی کوئی اطلاع نہیں ملی، لیکن دونوں جانب سے فوجی انخلاء کی بھی کوئی تصدیق نہیں ہوئی۔