دوسری بار امریکہ کے صدر بننے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سیاسی تاریخ میں وہ منفرد کارنامہ انجام دیا ہے جو اس سے پہلے صرف ایک بار دیکھا گیا۔ 2020 کا الیکشن ہارنے کے بعد بہت لوگوں نے سوچا تھا کہ ان کا سیاسی کیریئر ختم ہو گیا ہے، مگر انہوں نے تمام پیش گوئیوں کو غلط ثابت کیا اور ری پبلکن پارٹی کی مضبوط حمایت اور ڈیموکریٹک پارٹی کی اسٹریٹجک غلطیوں کے باعث وہ شاندار طریقے سے وائٹ ہاؤس لوٹے ہیں۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ امریکی تاریخ کے واحد صدر ہیں جو عدالت سے مجرم قرار پائے ہیں۔ پیر کوحلف برداری کے بعد ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈرز کے ڈھیر لگا دیے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے دوسرے دور میں بڑی تبدیلیاں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ٹرمپ کی صدارت کا ابتدائی عرصہ ان کے اور امریکی قوم کے لیے غیر متوقع کامیابی کا دور تھا۔ انہوں نے ری پبلکن پارٹی میں انتشار کا فائدہ اٹھایا، پرائمریز کے مرحلے میں وہ دیگرامیدواروں کے مقابلے میں کامیاب ہوئے۔ مگر ان کی صدارت پر الیکشن میں روسی مداخلت کے الزامات کی گہری چھاپ لگ گئی۔ اپنے پہلے دور میں ٹرمپ کو پارٹی کے اندر، میڈیا میں، کانگریس میں اور امریکی بیوروکریسی کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا رہا تھا۔
اپنے پہلے دور حکومت میں ٹرمپ کو ’ماگا‘ یعنی ’میک امریکا گریٹ اگین‘ (امریکا کو دوبارہ عظیم ملک بنانے) کے ایجنڈے کو مکمل طور پر نافذ کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا۔ اگرچہ انہوں نے سپریم کورٹ میں کنزرویٹو ججز کو تعینات کیا جو ان کی دیرپا کامیابی سمجھی جاتی ہے مگر کووڈ 19 کی وبا سے متعلق ان کی غیر موٴثر پالیسیوں کی وجہ سے ان کے دوبارہ الیکشن جیتنے کے امکانات کم ہوگئے۔ بڑے پیمانے پر بدانتظامی کی وجہ سے ان کی حکومت ویکسین کی تیاری کے باوجود اس کا کریڈٹ نہ لے سکی۔ ان کے پہلے دور کا تاثر کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا۔
جو بائیڈن کی 2020 میں جیت کی سب سے بڑی وجہ ٹرمپ کی طرف سے وبا کے دوران کیے گئے فیصلوں پر عوامی ناپسندیدگی تھی۔ بائیڈن کا دعویٰ تھا کہ وہ قوم کو متحد کرنے اور بحران سے نکالنے والے لیڈر ثابت ہوں گے مگر وہ بھی قوم کی توقعات پر پورے نہ اترے۔ ان کا دور مباحثوں میں بری کارکردگی، فیصلہ کن قیادت سے محرومی اور ان کی بڑھتی عمر پر تنقید کے حوالے سے بھرا رہا۔ انہوں نے مہنگائی سے لے کر بارڈر سیکیورٹی تک، یوکرین کی امداد سے غزہ کے بحران تک ہر معاملے میں اسٹریٹجک غلطیاں کیں، نتیجے کے طور پر ٹرمپ کی دھماکے دار واپسی کے لیے انہوں نے بہت ساری وجوہات فراہم کیں۔
اس کے علاوہ ٹرمپ کے خلاف قانونی کارروائیاں جن سے ان کے سیاسی کیریئر کے خاتمے کا خدشہ تھا، اُس کا اُلٹ نتیجہ نکلا۔ عدالت میں لمبی پیشیوں سے ٹرمپ کا یہ بیانیہ زور پکڑ گیا کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
پہلے دور کے برعکس ٹرمپ کی اوول آفس میں واپسی نسبتاً زیادہ بڑی حمایت کے ساتھ ہوئی ہے، ری پبلکن پارٹی پہلے سے زیادہ متحد ہے اور کانگریس کے دونوں ایوانوں پر اس کا مضبوط کنٹرول ہے۔ میڈیا اداروں کا بھی ٹرمپ سے متعلق مؤقف نرم رہا، بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے سربراہان کی کوشش بھی یہی ہے کہ ٹرمپ کی پالیسی کے ساتھ چلا جائے۔ دوسری طرف ڈیموکریٹک پارٹی بٹی ہوئی دکھائی دیتی ہے، ان میں اتنی طاقت یا حوصلہ نہیں رہا کہ وہ ٹرمپ کا مؤثر طور پر مقابلہ کر سکیں۔
اپنے حلف برداری کے خطاب اور ڈھیروں ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے ٹرمپ نے واضح کردیا ہے کہ وہ تنازعات کے خوف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انہوں نے میکسیکو کی سرحد پر نیشنل ایمرجنسی لگا دی، بڑے پیمانے پر پناہ گزینوں کے انخلا کا فیصلہ کیا، پیدائش کی بنیاد پر شہریت کا حق ختم کرنے کی بحث چھیڑ دی۔ پیرس ماحولیاتی معاہدے اور عالمی ادارہ صحت سے باہر نکلنے جیسے بڑے فیصلے کیے، انہوں نے سب سے پہلے امریکہ کو اہمیت دینے کی پالیسی کا واضح اعلان کیا۔ دوسری طرف کینیڈا اور میکسیکو کی برآمدات پر ٹیرف عائد کرکے امریکی تجارتی مفادات کے تحفظ کی پالیسی کا اظہارکیا ہے۔
ٹرمپ نے بعض متنازعہ اقدامات پر دوبارہ غور کرنے کا اشارہ دیا ہے جیسے پانامہ کینال کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش اور گرین لینڈ کو دوبارہ خریدنے کی کوششیں کرنے کا اعلان ہے۔ عالمی سطح پر وہ یوکرین کا تنازعہ حل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں، چائنہ اور ایران پر دباؤ بڑھاسکتے ہیں اور فلسطین کے مسئلے پر اسرائیلی ایجنڈے کی حمایت کرسکتے ہیں۔ شام سے انخلا کا آپشن بھی زیر غور ہے۔
ٹرمپ اپنے دوسرے دورِ صدارت کا آغاز پُراعتماد اور بڑی حمایت کے ساتھ کررہے ہیں، لیکن اس طاقت کا صحیح استعمال نہ کیا گیا تو جلدی نیچے گرسکتے ہیں۔ ڈیموکریٹس کو ٹرمپ کا سنجیدہ مقابلہ کرنے کے لیے ایک مضبوط رہنما کے تحت متحد ہونا ہوگا، جو کہ قریبی مستقبل میں مشکل نظر آتا ہے۔ ٹرمپ نے اگر 2026 کے مڈٹرم انتخابات تک یہی رفتار برقرار رکھی تو وہ آئین میں ترمیم کی بات چیت شروع کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں تاکہ تیسرے دور کے لیے صدارت کا امکان پیدا کیا جا سکے۔ اگر چہ ایسا ہونے کے بہت کم امکانات ہیں مگر روایات کو توڑنے والے ٹرمپ کے مزاج کے مطابق ہے۔
ٹرمپ کا دوسرا دور مقامی اور بین الاقوامی سیاست کے لیے اہم موڑ ثابت ہورہا ہے۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ وہ اپنی سیاسی قوت کو مزید مضبوط کرتے ہیں یا دوبارہ ملنے والے اس مینڈیٹ کو ضائع کرتے ہیں۔ مگر یہ بات طے ہے کہ ٹرمپ نے ایک بار پھر امریکی سیاست کو تبدیل کردیا ہے اور خود کو نئی مثالیں قائم کرنے والا صدر ثابت کردیا ہے۔
BIST کا نام اور لوگو "محفوظ ٹریڈ مارک سرٹیفکیٹ" کے تحت محفوظ ہیں اور بغیر اجازت کے استعمال، حوالہ یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ BIST کے نام سے ظاہر کردہ معلومات کے تمام حقوق مکمل طور پر BIST کی ملکیت ہیں اور اسے دوبارہ شائع نہیں کیا جا سکتا۔ مارکیٹ کا ڈیٹا iDealdata Financial Technologies Inc کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ BIST اسٹاک ڈیٹا میں 15 منٹ کی تاخیر ہوتی ہے۔