نیتن یاہو ہر معاملے میں ٹرمپ کے حامی، شام کے معاملے پر کیوں نہیں؟

13:2423/07/2025, بدھ
جنرل23/07/2025, بدھ
قدیر استن

بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سات ماہ کے دوران شام نے سیاسی استحکام کی طرف نمایاں پیش رفت کی ہے۔ تاہم السویدہ میں بدامنی کے حالیہ واقعات یہ یاد دلاتے ہیں کہ آگے کا سفر اب بھی طویل اور مشکل ہے۔ احمد الشراع کی قیادت میں شام کی نئی حکومت نے مختلف گروپس کے درمیان مفاہمت کو فروغ دینے اور بین الاقوامی سفارتی شناخت حاصل کرنے کے لیے قابلِ ذکر اقدامات کیے ہیں۔ بین الاقوامی پابندیوں میں نرمی سے لے کر نسلی اور فرقہ وارانہ برادریوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے تک، شام میں کئی مثبت پیش رفتیں ہوئی ہیں۔تاہم

بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سات ماہ کے دوران شام نے سیاسی استحکام کی طرف نمایاں پیش رفت کی ہے۔ تاہم السویدہ میں بدامنی کے حالیہ واقعات یہ یاد دلاتے ہیں کہ آگے کا سفر اب بھی طویل اور مشکل ہے۔ احمد الشراع کی قیادت میں شام کی نئی حکومت نے مختلف گروپس کے درمیان مفاہمت کو فروغ دینے اور بین الاقوامی سفارتی شناخت حاصل کرنے کے لیے قابلِ ذکر اقدامات کیے ہیں۔ بین الاقوامی پابندیوں میں نرمی سے لے کر نسلی اور فرقہ وارانہ برادریوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے تک، شام میں کئی مثبت پیش رفتیں ہوئی ہیں۔تاہم السویدا کے واقعات میں اسرائیل کا جو کردار رہا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام میں استحکام اب بھی علاقائی حالات سے جڑا ہوا ہے۔ اسرائیل کی مداخلت کو اس کی ان مسلسل کوششوں کے حصے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جن کا مقصد خطے میں طاقت کا توازن اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنا ہے۔ اسرائیل کی یہ کوشش اس وقت مزید شدت سے نظر آئی جب اس نے ایران پر حملہ کر کے امریکہ کو بھی اس جنگ میں جھونک دیا تھا۔

واشنگٹن کی ’تشویش‘

اسرائیل نے السویدہ میں ہونے والی جھڑپوں میں اس جواز کے تحت مداخلت کی کہ وہ دروز آبادی کی حفاظت کرنا چاہتا ہے۔ لیکن بالآخر اسے واشنگٹن کے دباؤ پر جنگ بندی کرنا پڑی۔ اس سے قبل بھی نیتن یاہو کی حکومت دروز کے تحفظ کے نام پر بدامنی کو ہوا دے چکی ہے۔ لیکن شام میں ہونے والے پرتشدد واقعات میں براہِ راست مداخلت سے لگتا ہے کہ اسرائیل یہ نارملائز کرنا چاہتا ہے کہ وہ جب چاہے شام کے اندر آزادانہ کوئی کارروائی کر سکے۔ دمشق اور شامی سرحدی علاقوں پر اسرائیل کے حملے اب معمول بن چکے ہیں جو ٹرمپ انتظامیہ کی شام میں استحکام لانے کی ترجیح سے بھی واضح طور پر متصادم نظر آتے ہیں۔

ٹرمپ شام سے مکمل انخلا کے خواہش مند ہیں اور دمشق کو امن و امان بحال کرنے کا موقع دینا چاہتے ہیں۔ مگر نیتن یاہو کا مؤقف ان سے مختلف ہے جو جنوبی شام کو "غیر عسکری" بنانے کی بات کرتے ہیں۔ امریکہ کے ترکیہ میں سفیر اور شام کے لیے خصوصی نمائندے ٹام بیرک نے اسرائیل کی مداخلت کو اپنے دفاع کا اقدام قرار دیا۔ لیکن ساتھ ہی اسے "بہت الجھن زدہ" اور "انتہائی نامناسب وقت پر کیا گیا" عمل بھی کہا جو واشنگٹن کی ناراضی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

وائٹ ہاؤس سے موصول ہونے والی رپورٹس کے مطابق اسرائیل کے شام پر حملے اور غزہ میں ایک کیتھولک چرچ پر حملہ صدر ٹرمپ کے لیے بھی غیر متوقع تھا۔ ان واقعات کے بعد ٹرمپ نے فوراً اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو فون کیا تاکہ "معاملہ سلجھایا جا سکے"۔ امریکی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے بعض ارکان نجی محفلوں میں نیتن یاہو کو "پاگل آدمی" کہنے لگے ہیں۔

نیتن یاہو کی بے لگام مہم

سات اکتوبر 2023 کے حملوں کے بعد سے نیتن یاہو مستقل جنگی کیفیت میں دکھائی دیتے ہیں اور وہ اپنا سیاسی مستقبل خطے میں محاذ آرائی پر تعمیر کر رہے ہیں۔ اسرائیل اب قومی خودمختاری کی پروا کیے بغیر لبنان، ایران، شام اور یمن کو بھی اپنے نشانے پر رکھ چکا ہے۔ نیتن یاہو ایک ایسی اسٹریٹیجک حقیقت قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں اسرائیل اپنی سلامتی کے نام پر کہیں بھی مداخلت کر سکے۔ اگرچہ وہ وقتی طور پر واشنگٹن کے خدشات دور کرنے کے لیے محدود اقدامات کر سکتے ہیں لیکن یہ واضح ہے کہ وہ اپنے موجودہ راستے پر ہی چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ عوامی سطح پر ناراضی کے باوجود امریکہ کی اسرائیل کے لیے حمایت برقرار رہے گی۔ اسی یقین کی بنیاد پر اسرائیل سمجھتا ہے کہ اسے کسی سیاسی یا عسکری ردِعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

نیتن یاہو مؤثر طور پر بائیڈن اور ٹرمپ دونوں کی انتظامیہ کو ایسی پوزیشن میں دھکیلنے میں کامیاب رہے ہیں جہاں وہ اسرائیل کو روکنے کے بجائے اس کے اقدامات کے بعد "صورتِ حال کو سنبھالنے" میں مصروف رہتے ہیں۔ اسی لیے نیتن یاہو کو یہ ایسا تاریخی موقع نظر آ رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو خطے میں ایک ایسی طاقت کے طور پر منوا لیں جو آزادی سے جب جو چاہے کر سکے۔ ٹام بیرک کے اشارے کے مطابق اسرائیل خطے میں مضبوط خودمختار ریاستیں نہیں چاہتا۔ اسرائیل فوجی مداخلتوں کے ذریعے اور دروز اقلیت اور کرد وائے پی جی پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے یہ پیغام دے رہا ہے کہ وہ شام کے داخلی معاملات کی سمت خود طے کرنا چاہتا ہے۔

​​ہم نے پہلے اس پر بات کی تھی کہ بشارالاسد کے بعد شام کا مستقبل اس کی اس صلاحیت پر منحصر ہوگا کہ وہ اندرونی تنازعات اور علاقائی دباؤ کو کس حد تک سنبھال پاتا ہے۔ گزشتہ سات ماہ کے دوران علویوں اور دروز گروہوں کے درمیان داخلی جھڑپوں اور اسرائیلی مداخلتوں نے شام کو درپیش اندرونی و بیرونی خطرات کو نمایاں کر دیا ہے۔ اسرائیل کی موجودہ پالیسیوں کی بنیاد پر یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ وہ شام کو ایک تقسیم شدہ، کمزور اور غیر خودمختار ملک کے طور پر ہی دیکھنا چاہتا ہے ۔

اس کے برعکس ٹرمپ انتظامیہ شام کو ایسے ملک کے طور پر دیکھنا چاہتی ہے جہاں استحکام اور مختلف نسلی و مذہبی گروہوں کی نمائندگی ہو۔ بائیڈن حکومت کی جانب سے افغانستان سے جلد بازی میں کیے گئے انخلا کے برعکس ٹرمپ چاہتے ہیں کہ شام سے انخلا زیادہ منظم طریقے سے ہو۔ لیکن بجائے اس کے کہ نیتن یاہو پر مسلسل دباؤ ڈالیں، وہ سیکیورٹی کے نام پر اسرائیلی اقدامات کا جواز پیش کرتے نظر آتے ہیں۔

حالاں کہ سب یہ بات جانتے ہیں کہ شام اسرائیل کے لیے کوئی حقیقی خطرہ نہیں اورشام میں استحکام خطے کی سیکیورٹی کے لیے نہایت اہم ہے۔ مگر نیتن یاہو کو اس بات پر قائل کرنا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔

واشنگٹن میں اسرائیل کے حامی گروپ پہلے ہی ٹرمپ انتظامیہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ دمشق سے مزید مطالبات کرے جس سے نیتن یاہو کو مزید چالیں چلنے کی گنجائش ملتی ہے۔ یہ بات دن بدن زیادہ واضح ہوتی جا رہی ہے کہ شام کے مستقبل کے حوالے سے امریکہ اور اسرائیل ایک صفحے پر نہیں ہیں اور اس فاصلے کو کم کرنا بھی آسان کام نہیں ہوگا۔

اگرچہ امریکہ ایک مستحکم اور متحد شام کو ترجیح دیتا ہے، اسرائیل واضح طور پر ایک منقسم اور کمزور شام کی کوششیں کر رہا ہے۔ واشنگٹن اس بات پر بھی آمادہ نظر نہیں آتا کہ وہ اتنا سیاسی دباؤ ڈالے کہ اپنی پالیسی کو نافذ کرا سکے۔ اگر صدر ٹرمپ واقعی یہ چاہتے ہیں کہ ان کے دورِ صدارت کے بعد شام مکمل انتشار کا شکار نہ ہو تو انہیں اسرائیلی مداخلت کے خلاف کہیں زیادہ سخت مؤقف اپنانا ہوگا۔ لیکن اب تک واشنگٹن صرف اس حد تک مطمئن دکھائی دیتا ہے کہ اسرائیلی مداخلت کو معمولی سطح تک محدود رکھا جائے۔ اور وہ اتنی سختی نہیں کرنا چاہتا جو تل ابیب کو خطے کے لیے امریکی وژن قبول کرنے پر مجبور کر سکے۔

##شام
##دروز
##اسرائیل