غزہ میں فلسطینیوں کو کیا حاصل ہوا؟

11:053/02/2025, پیر
جنرل3/02/2025, پیر
سِلچک ترکیلماز

غزہ میں سیز فائر معاہدے کے بعد بھی اسرائیل کے ویسٹ بینک پر حملے جاری ہیں۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ اسرائیل کو امریکہ اور برطانیہ کی ’کالونی‘ (یعنی نوآبادیاتی یا فوجی اڈا) سمجھا جاتا ہے۔ اسرائیل ایسے حملوں کو اپنے اسٹریٹجک اہداف کے حصول کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔ ان مقاصد کی جڑیں آبادکار بستیوں کے پھیلاؤ میں چھپی ہیں، جب غزہ میں نسل کشی جاری تھی، ویسٹ بینک میں آبادکاروں (یعنی وہ لوگ جو مقامی لوگوں کی زمین پر قابض ہوکر وہاں بستے ہیں) نے پہلے ہی غزہ کے حوالے سے اپنے اگلے اقدامات کی منصوبہ

خبروں کی فہرست

غزہ میں سیز فائر معاہدے کے بعد بھی اسرائیل کے ویسٹ بینک پر حملے جاری ہیں۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ اسرائیل کو امریکہ اور برطانیہ کی ’کالونی‘ (یعنی نوآبادیاتی یا فوجی اڈا) سمجھا جاتا ہے۔ اسرائیل ایسے حملوں کو اپنے اسٹریٹجک اہداف کے حصول کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔ ان مقاصد کی جڑیں آبادکار بستیوں کے پھیلاؤ میں چھپی ہیں، جب غزہ میں نسل کشی جاری تھی، ویسٹ بینک میں آبادکاروں (یعنی وہ لوگ جو مقامی لوگوں کی زمین پر قابض ہوکر وہاں بستے ہیں) نے پہلے ہی غزہ کے حوالے سے اپنے اگلے اقدامات کی منصوبہ بندی شروع کرلی تھی۔ ٹی آر ٹی ورلڈ کی ڈاکیومنٹری ’سیکرڈ آکیوپیشن‘ میں ویسٹ بینک میں آبادکار تنظیموں کے بارے میں اہم معلومات پیش کی گئی ہیں۔ یہودی آبادکاروں کو یقین تھا کہ وہ کامیاب ہوں گے اور اسی لیے وہ غزہ کو مقبوضہ کالونی بنانے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ جنگ بندی کے بعد نئے امریکی صدر ٹرمپ بھی اِن منصوبوں سے متاثر نظر آئے، انہوں نے غزہ کے ساحلوں پر خوبصورت گھروں کی تعمیر کی بات کی۔ یہ اشارہ ہے کہ آبادکاروں کے قبضے کے منصوبے سے کون آگاہ تھا۔ لیکن آبادکار اپنے عزائم کے باوجود ناکام رہے۔ غزہ والوں کے گھر بھلے ہی کھنڈر بن گئے، مگر وہ سب اُن گھروں میں واپس آباد ہوگئے اور اس طرح ویسٹ بینک کے آبادکاروں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

ایسے سوال جیسا کہ ’کیا فلسطینی جیتے یا اسرائیل؟‘ اور ان پر ہونے والی بحث اکثر تقسیم اور کشیدگی پیدا کرتی ہیں۔ کچھ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ ’اس میں جیت کہاں ہے؟ غزہ تباہ ہوگیا، ہزاروں افراد ہلاک ہوگئے اور خطہ ملبے کا ڈھیر بن گیا۔‘ ان کے لیے جواب یہ ہے کہ فلسطینیوں کے چہرے پر موجود مسکراہٹ کو سمجھنا تقریباً ناممکن ہے۔ کئی لوگ اس سوچ سے متفق ہیں۔ کچھ لوگ تو غزہ کی بری حالت کو یکسر مسترد کرتے ہیں، کہتے ہیں مغربی نظام بالکل ٹھیک کام کررہا ہے اور یہ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں کہ وہاں کیا ہوا۔

زیادہ قابلِ غور بات یہ ہے کہ قدامت پسند مذہبی گروہوں کا یہ عقیدہ ہے کہ غزہ کے لوگ اسرائیل کو شکست نہیں دے سکتے۔ بدقسمتی سے یہ پولرائزیشن اس وجہ سے بھی بڑھ گئی ہے کہ لوگ ان واقعات کو اپنے اپنے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کا اثر غزہ سے متعلق مباحثوں پر بھی پڑا ہے، حتیٰ کہ کچھ لوگ بنیادی تصورات کو بھی ٹھیک سے نہیں سمجھتے، اس وجہ سے لوگوں کا رویہ نادانی یا من مانی والا ہوجاتا ہے۔

آبادکار ریاستی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے کام کرتے ہیں تاکہ ریاست اپنے کالونائزیشن (یعنی کسی دوسرے علاقے پر قبضہ اور حکمرانی) کے مقاصد حاصل کر سکے۔ اسرائیل نے کافی عرصہ پہلے آباد کاروں کے ذریعے غزہ پر قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ آباد کاروں کو اب نان اسٹیٹ ایکٹرز یا غیر ریاستی عناصر کہا جانے لگا ہے۔ وہ کسی قانون کے پابند نہیں ہیں۔ ترکیہ میں، یہ گروہ زیادہ ترگمنام ہیں۔ یہاں تک کہ جو لوگ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں وہ بھی ’آبادکار‘ کی اصطلاح استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ کچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ آباد کاروں کو ’چور‘ کہنا ضروری ہے، ان کے خیال میں ’آبادکار‘ کا لفظ ان کے اقدامات کی سنگینی کو بیان نہیں کرتا۔ میں اصطلاحات پر بحث نہیں کروں گا، لیکن نوآبادیاتی توسیع میں آباد کاروں کے خصوصی کردار کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ آباد کار دراصل افراد یا منظم گروہ ہیں جو ریاستی مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے غیر ریاستی ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ اگرچہ ان کی چوری واضح ہے، لیکن ان کے اعمال کو محض چوری تک محدود کرنا گمراہی ہے۔ حملے اور قبضے جیسی اصطلاحات بھی آباد کاروں کے اقدامات کو بیان کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔

آبادکاروں کے تحفظ کے لیے ’ہگانا‘ جیسی تنظیمیں قائم کی گئیں تھیں۔ این جی اوز اور مالیاتی اداروں نے آبادکار بستیوں کے پھیلاؤ کویقینی بنانے کے لیے کام کیا۔ اگر ہم اس کو ایک منظم مسئلے کے طور پر نہ دیکھیں تو ہم غزہ کے لوگوں کی عزم و حوصلے کو سمجھ نہیں سکتے، جو ملبے کے ڈھیر پر سر اٹھا کر چل رہے ہیں۔ سسٹم کے اندر کام کرنے والے اپوزیشن گروپس ایسا عزم اور حوصلہ کبھی ظاہر نہیں کر سکتے تھے۔

صدر بننے کے بعد ٹرمپ کی بیان بازی نے نوآبادیاتی پھیلاؤ کا نیا دور شروع کردیا۔ ان کے بیانات کے جغرافیائی سیاسی اثرات پر بات کرنا ضروری ہے، درحقیقت ان کے بیانات نوآبادیاتی پھیلاؤ کی سوچ کو واضح کرتے ہیں۔ ایک خیال یہ تھا کہ ایسی پالیسیز اُنیسویں صدی میں ختم کر دی گئی تھیں، مگر صیہونیوں نے فلسطین میں ان پالیسیوں پر عمل جاری رکھا۔ فلسطینیوں نے پہلی بار صیہونیوں کو اپنے بل بوتے پر روکا ہے۔ انہوں نے 15 ماہ تک مزاحمت کی، آبادکاروں کو نئی سیٹلمنٹس کی جڑیں پھیلانے سے روکے رکھا۔ اس مزاحمت نے بھی امریکی عزائم کی راہ میں رکاوٹ ڈالی۔

ان واقعات کو ایک نظام کے حصے کے طور پر دیکھنا چاہیے، اسی صورت میں ہم فلسطینیوں کی کامیابیوں کی بہتر طورپر تعریف کرسکتے ہیں۔ یہ کامیابیاں جدوجہد کے ایک نئے نظریہ کی نمائندگی کرتی ہیں۔



یہ بھی پڑھیں:


#حماس اسرائیل جنگ
#غزہ
#فلسطین
#مشرق وسطیٰ