کن ممالک نے ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے منصوبے کی مخالفت کی؟

09:5612/02/2025, بدھ
جنرل12/02/2025, بدھ
ویب ڈیسک
عالمی رہنماؤں نے اس منصوبے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فلسطینیوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے
تصویر : اے آئی / فائل
عالمی رہنماؤں نے اس منصوبے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فلسطینیوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضہ کرنے اور وہاں کے فلسطینی عوام کو کہیں اور بسانے کے منصوبے کو دنیا بھر کے ممالک نے شدید مخالفت کی ہے۔

عالمی رہنماؤں نے اس منصوبے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فلسطینیوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے اور خطے میں مزید مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ یہاں ان اہم ممالک اور تنظیموں کا جائزہ لیا گیا ہے جنہوں نے ٹرمپ کے اس منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔


چائنہ:

چائنہ نے واضح کیا ہے کہ وہ ٹرمپ کے فلسطینیوں کو زبردستی بے دخل کرنے کے منصوبے کے خلاف ہے۔ جب چین سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس منصوبے کے بارے میں پوچھا گیا، جس کے تحت غزہ کے رہائشیوں کو کہیں اور منتقل کرنے کی بات کی جا رہی ہے، تو چین نے اس کی مخالفت کی۔

بیجنگ میں پریس کانفرنس کے دوران صحافی نے سوال پوچھا کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کے رہائشیوں کو کہیں اور منتقل کرنے کے پلان پر کیا رائے رکھتے ہیں تو چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گُوؤ جیاکُن نے کہا کہ غزہ فلسطینیوں کا ہے اور یہ فلسطین کی سرزمین ہے۔ چائنہ غزہ کے لوگوں کو زبردستی بے دخل کرنے کے کسی بھی اقدام کی مخالفت کرتا ہے۔


مصر

مصر نے فلسطینیوں کو اپنی سرزمین پر بسانے کے خیال کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ مصری حکام نے زور دیا ہے کہ غزہ کے عوام کو اپنی زمین پر ہی رہنا چاہیے اور خبردار کیا ہے کہ کسی بھی زبردستی نقل مکانی کے علاقائی سلامتی پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔

صدر عبدالفتاح السیسی نے واضح طور پر کہا ہے کہ مصر کسی ایسے منصوبے کو قبول نہیں کرے گا جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کو زبردستی بےدخل کیا جائے۔


خلیجی تعاون کونسل

خلیجی تعاون کونسل، جو چھ خلیجی ممالک (سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین، عمان اور کویت) کا سیاسی اور اقتصادی اتحاد ہے، نے ٹرمپ کے منصوبے کی مخالفت کی ہے۔

خلیجی تعاون کونسل کے سیکریٹری جنرل جاسم البدیوی نے واضح کیا کہ عرب ریاستیں کسی ایسے منصوبے کو قبول نہیں کریں گی جو فلسطینی خودمختاری کو نقصان پہنچائے۔


یورپی یونین

متعدد یورپی یونین کے ممالک نے بھی اس منصوبے کو مسترد کر دیا ہے، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اسرائیل-فلسطین تنازع کے حل کے لیے بین الاقوامی قوانین اور فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت کو مدنظر رکھا جائے۔ یورپی رہنماؤں نے خبردار کیا ہے کہ فلسطینیوں کی زبردستی بے دخلی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو مزید بڑھا سکتی ہے۔


ترکیہ

ترکی نے مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ کی پالیسیوں پر شدید تنقید کی ہے۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے اسے نسلی صفائی (Ethnic Cleansing) قرار دیا ہے اور کہا کہ وہ کسی بھی ایسے اقدام کی مخالفت کریں گے جو فلسطینی حقوق کو نقصان پہنچائے۔

ترکیہ کے صدر نے کہا ہے کہ ’غزہ میں اسرائیلی حملوں سے 100 ارب ڈالر تک کا نقصان ہوا۔‘

انہوں نے مزید کہا ہے کہ ’اس کا ذمہ دار بنیامن نیتن یاہو کی حکومت کو ٹھہرا کر وہاں تعمیراتی کام شروع کرنا چاہیے۔‘

رجب طیب اردووان نے کہا ہے کہ ’غزہ کے لوگوں کو دوسرے ملکوں میں جانے کے مشورے دینے کے بجائے وہاں کیا گیا نقصان کیسے پورا کرنا اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘


جنوبی افریقہ

جنوبی افریقہ نے بھی اس منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔ جنوبی افریقی حکومت نے اسرائیلی پالیسیوں کو فلسطین میں نسل پرستی سے تشبیہ دیتے ہوئے زور دیا ہے کہ زبردستی نقل مکانی فلسطینی عوام پر مزید ظلم و ستم کے مترادف ہوگی۔




#مشرق وسطیٰ
#امریکا
#چائنہ
#سعودی عرب