
عمر بولات نے کہا کہ ترکیہ نے تو ایک سال پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ تجارت معطل کردی تھی، ترکیہ کا مضبوط مؤقف اب ایک سال بعد یورپی ممالک میں بھی گونج رہا ہے۔
ترکیہ کے وزیرِ تجارت عمر بولات نے کہا ہے کہ مغربی ممالک نے آخر کار، دیر سے ہی سہی مگر شام اور غزہ پر اسرائیلی حملوں پر بولنے لگے ہیں۔
عمر بولات نے امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے شام پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے حالیہ فیصلوں کا خیر مقدم کیا۔
برطانیہ کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تجارتی مذاکرات معطل کرنے سے متعلق انہوں نے کہا کہ ترکیہ نے تو ایک سال پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ تجارت معطل کردی تھی، ترکیہ کا مضبوط مؤقف اب ایک سال بعد یورپی ممالک میں بھی گونج رہا ہے۔
بولات نے کہا کہ غزہ سانحہ انسانی تاریخ پر ’ایک بدنما داغ‘ کے طور پر یاد رکھا جائے گا اور اس بات پر زور دیا کہ اگر عالمی برادری متحد ہو کر اقدام کرے تو اسرائیل کی جارحیت کو روکا جا سکتا ہے۔
’ترکیہ کا مؤقف اب دنیا میں سنا جا رہا ہے‘
برطانیہ اور یورپی یونین کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات پر نظرِثانی اور شام پر عائد پابندیوں میں نرمی کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے ترک وزیرِ تجارت عمر بولات نے کہا کہ مغربی رویّوں میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
بولات نے کہا کہ صدر رجب طیب اردوان کی قیادت میں ترکیہ نے شام کے حوالے سے ہمیشہ ایک اصولی مؤقف اپنایا ہے۔ انہوں نے 8 دسمبر کی انقلابی تبدیلی کے بعد قائم ہونے والی نئی شامی حکومت کی جامع پالیسیوں کی حمایت کی، جن کا مقصد قومی اتحاد اور استحکام کا قیام ہے۔
انہوں نے امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے شام پر عائد مالی اور تجارتی پابندیاں ختم کرنے کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام شام کی تعمیر نو اور اسے عالمی برادری میں دوبارہ شامل کرنے کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔
ترک وزیرِ تجارت عمر بولات نے کہا کہ شام پر پابندیاں ختم ہونے سے شامی تارکینِ وطن کو دوبارہ تجارت اور مالی لین دین شروع کرنے کا موقع ملے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعاون آسان ہوگا اور شام کی معیشت کی بحالی کا عمل تیز ہو جائے گا۔
اسرائیل کے حوالے سے یورپ کا بدلتا مؤقف
یورپ کی جانب سے اسرائیل سے متعلق حالیہ رویے پر بات کرتے ہوئے بولات نے کہا کہ کئی یورپی ممالک کے بیانات اس بات کی امید دلاتے ہیں کہ فلسطین میں جاری خونریزی کو ختم کرنے کے لیے مثبت پیش رفت ممکن ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ ترکیہ نے 10 اپریل 2024 کو اسرائیل کو اپنی آدھی برآمدات بند کر دی تھیں اور 2 مئی 2024 تک تمام تجارتی رابطے (امپورٹ اور ایکسپورٹ) مکمل طور پر روک دیے گئے تھے۔ بولات کے مطابق ترکیہ کا یہ مضبوط اور اصولی مؤقف اب ایک سال بعد یورپی ممالک میں بھی گونج رہا ہے۔
’22 یورپی ممالک کی جانب سے اب عملی اقدام کا مطالبہ‘
عمر بولات نے برطانیہ کے اسرائیل کے ساتھ تجارت کے مذاکرات معطل کرنے کے فیصلے اور یورپی یونین کی جانب سے ’یورپی یونین-اسرائیل ایسوسی ایشن معاہدے‘ کا جلد جائزہ لینے کے اقدام کو نہایت اہم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اب 22 یورپی ممالک اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کے لیے عملی اقدام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
بولات نے کہا کہ ’اگر دیگر ممالک نے بھی وہی تجارتی پابندیاں 13 ماہ قبل نافذ کی ہوتیں جو ترکیہ نے کی تھیں، تو غزہ میں تباہی اور انسانی جانوں کا ضیاع اس قدر سنگین نہ ہوتا۔‘
انہوں نے اسرائیل کی جارحیت کے خلاف عالمی سطح پر متحد ہو کر اقدام کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور غزہ کی صورتحال کو ’نسل کشی اور انسانی المیہ‘ قرار دیا۔