انڈیا-پاکستان: کیا عالمی مداخلت دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرپائیں گی؟

06:389/05/2025, جمعہ
جنرل9/05/2025, جمعہ
ویب ڈیسک
انڈیا نے پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ’دہشت گردی کے سٹرکچر‘ پر حملے کیے ہیں،
تصویر : اے ایف پی / فائل
انڈیا نے پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ’دہشت گردی کے سٹرکچر‘ پر حملے کیے ہیں،

انڈیا نے پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ’دہشت گردی کے سٹرکچر‘ پر حملے کیے ہیں، جو کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں گزشتہ ماہ ہونے والے حملے کے جواب میں کیے گئے، جس کے بعد دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی مزید بڑھ گئی ہیں۔

پاکستان نے بدھ کے روز کہا کہ انڈین حملوں میں کم از کم 31 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔ پاکستانی فورسز کی جوابی کارروائیوں میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کم از کم 10 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ جبکہ ایل او سی پر دونوں طرف سے حالیہ گولہ باری اور فائرنگ کے باعث پاکستانی کشمیر میں چھ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ انڈیا کے حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا، جب کہ انڈیا کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اس کی فورسز نے صرف اُن ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جہاں سے انڈیا پر حملوں کی ’منصوبہ بندی‘ کی جا رہی تھی۔

انڈیا نے 22 اپریل کو پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا ہے، اس حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسلام آباد نے کسی بھی کردار کی تردید کرتے ہوئے اس حملے کی ’غیر جانبدارانہ‘ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جبکہ بھارت نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔

انڈیا کا دعویٰ ہے کہ پاکستان نے ان مسلح گروہوں کو پناہ دے رکھی ہے، جنہوں نے پہلگام حملے کے علاوہ 2008 میں ممبئی حملہ اور 2019 میں پلوامہ حملہ بھی شامل ہیں۔ ان تینوں حملوں میں سکیورٹی فورسز سمیت 226 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

کشیدہ حالات کے دوران عالمی رہنماؤں نے دونوں ملکوں سے صبر سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔

پاکستان طویل عرصے سے کشمیر کے تنازعے کے حل کے لیے ثالثی یا بین الاقوامی مداخلت کا خیرمقدم کرتا آیا ہے۔ تاہم نئی دہلی اس تنازعے کو بین الاقوامی سطح پر لانے سے گریز کرتا رہا ہے۔ انڈیا اور پاکستان دونوں کشمیر پر کنٹرول کرنے کا دعویٰ رکھتے ہیں، اس کا ایک ایک حصہ دونوں کے زیرِ انتظام ہے جبکہ چائنہ بھی شمالی کشمیر کے ایک حصے پر کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے۔

یہاں وہ اہم نکات ہیں جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے کی جانے والی بین الاقوامی کوششوں سے متعلق جاننے ضروری ہیں:

امریکہ:

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بدھ کے روز انڈیا اور پاکستان کے قومی سلامتی مشیروں سے بات کی۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق مارک روبیو نے دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ رابطے کے ذرائع کھلے رکھیں اور کشیدگی میں اضافے سے گریز کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ صورتحال کا قریبی جائزہ لے رہے ہیں اور ایک پرامن حل کی امید رکھتے ہیں۔

برطانیہ:

برطانیہ نے بھی اس تنازع میں سفارتی کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔ برطانوی وزیرِ تجارت جوناتھن رینولڈز نے بی بی سی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم دونوں ملکوں کی مدد کے لیے تیار ہیں۔ دونوں کے لیے خطے میں امن، بات چیت اور کشیدگی کم کرنا بہت ضروری ہے اور اگر ہم اس میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں تو ہم تیار ہیں۔‘

یہ تنازع 1947 میں برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کے دوران ہندوستان کی تقسیم کے بعد سے چلا آ رہا ہے، جس میں انڈیا اور پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔

چائنہ:

بیجنگ نے انڈیا کے حملے پر ’افسوس‘ کا اظہار قرار دیا اور دونوں ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ صبر سے کام لیں۔ چینی وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا کہ ’یہ دونوں ممالک چائنہ کے پڑوسی ہیں اور چائنہ ہر قسم کی دہشت گردی کی مخالفت کرتا ہے۔‘

فرانس:

فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نویل بارو نے کہا کہ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انڈیا دہشت گردی سے اپنے تحفظ کی کوشش کرے، لیکن انہوں نے انڈیا اور پاکستان دونوں سے کہا کہ وہ کشیدگی نہ بڑھائیں اور عام لوگوں کی حفاظت کریں۔

اقوام متحدہ:

اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ عالمی برادری ایک فوجی تصادم کا خطرہ نہیں مول لے سکتی کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں۔

کون ثالثی کی پیشکش کر چکا ہے؟

چائنہ:

پاکستان نے تجویز دی تھی کہ چائنہ پہلگام حملے کی تحقیقات میں بین الاقوامی تحقیقات کے لیے کردار ادا کر سکتا ہے۔ جس کے بعد چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان گو جیاؤ کن نے ایک منصفانہ اور غیر جانبدار تحقیقات کا خیرمقدم کیا۔ انہوں نے بات چیت اور مشاورت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ علاقائی امن اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔‘

روس:

روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے اپنے پاکستانی ہم منصب اسحاق ڈار کو بتایا کہ ماسکو صورتحال کے سیاسی حل کے لیے مدد کرسکتا ہے، شرط یہ ہے کہ اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں راضی ہوں۔

ملائیشیا:

ملائیشیا کے وزیرِ اعظم انور ابراہیم نے ایکس پر ایک پوسٹ میں پاکستان کی طرف سے پہلگام حملے کی ’آزاد اور شفاف تحقیقات‘ کے مطالبے کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ ملائیشیا کسی بھی ضرورت پر ایک تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے اور اگر نئی دہلی اور اسلام آباد دونوں کو منظور ہو، تو ہم ثالثی کے لیے تیار ہیں۔

ایران:

ایرانی وزیرِ خارجہ عباس ارغچی نے ایکس پر کہا کہ ایران اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان ثالثی کے لیے تیار ہے تاکہ اس مشکل وقت میں بہتر سمجھ بوجھ پیدا کی جا سکے۔


پاکستان اور انڈیا کشمیر پر ثالثی کے بارے میں کیا موقف رکھتے ہیں؟

انڈیا نے اپنے زیر انتظام کشمیرمیں پانچ لاکھ سے زائد فوجی تعینات کیے ہیں۔ 2019 میں انڈیا کی دائیں بازو کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی جس کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات مزید خراب ہوگئے تھے۔

دونوں ممالک نے کشمیر کے تنازعے پر چار جنگوں میں سے تین جنگیں لڑی ہیں۔ 2019 میں انڈیا کے فوجیوں پر کشمیر میں ہونے والے ایک حملے کے بعد دونوں ممالک جنگ کے دہانے تک پہنچ گئے تھے۔

انڈیا کا موقف:

انڈیا کا کہنا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ صرف انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہے، اور اس نے ہمیشہ تیسرے فریق کی مداخلت کو مسترد کیا ہے۔ انڈیا اپنے موقف کو مضبوط کرنے کے لیے 1972 کے شملہ معاہدے کا حوالہ دیتا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ تنازعات کا حل دونوں ممالک کے درمیان ہونا چاہیے۔

پاکستان کا موقف:

پاکستان کا موقف یہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ عالمی سطح پر زیرِ بحث آنا چاہیے اور اس میں ثالثی کی ضرورت ہے تاکہ یہ تنازعہ حل ہو سکے۔

تجزیہ کار کا خیال:

بین الاقوامی کرائسس گروپ کے سینئر تجزیہ کار پروین ڈھنٹی کے مطابق انڈیا سمجھتا ہےکہ کشمیر کے معاملے پر غیر ملکی مداخلت سے پاکستان کو سیاسی اہمیت یا برابری کا درجہ مل جائے گا، جو انڈیا نہیں چاہتا۔

انہوں نے بتایا کہ انڈیا اپنے دعووں کو زیادہ مضبوط سمجھتا ہے۔ انڈیا خود کو ایک علاقائی طاقت سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان سے براہِ راست بات چیت کرے۔

1948 میں اقوام متحدہ کی قرارداد:

1948 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 47 منظور کی تھی، جس میں کشمیر میں ایک رائے شماری کرانے کا کہا گیا تھا تاکہ کشمیری عوام یہ فیصلہ کر سکیں کہ وہ انڈیا کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔

پاکستان کا موقف:

پاکستان کشمیر کے مسئلے پر ہمیشہ تیسرے فریق کی ثالثی کے لیے تیار رہا ہے، چاہے وہ کوئی ملک ہو یا اقوام متحدہ جیسی عالمی تنظیم۔ پاکستان مختلف اقوامِ متحدہ کے فورمز پر کشمیر کا مسئلہ اٹھاتا رہا ہے اور تنظیم سے اس تنازعے کے حل میں مدد مانگتا ہے۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں:

اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اور دیگر عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے انڈیا پر کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا ہے۔

لاہور یونیورسٹی کے سینٹر فار سیکیورٹی، اسٹریٹجی اینڈ پالیسی ریسرچ کی ڈائریکٹر رابیہ اختر کے مطابق پاکستان تیسرے فریق کی ثالثی چاہتا ہے کیونکہ وہ اس تنازعے کو ایک بین الاقوامی مسئلہ سمجھتا ہے جس کے انسانی، قانونی اور سیاسی پہلو بہت گہرے ہیں۔

رابیہ اختر نے الجزیرہ کو بتایا کہ چونکہ انڈیا مسلسل بات چیت سے انکار کرتا رہا ہے، اس لیے پاکستان کے پاس براہِ راست مذاکرات میں محدود اثر و رسوخ رہ گیا ہے۔

اسلام آباد کے پاس بین الاقوامی ثالثی ہی واحد راستہ ہے جس سے وہ سفارتی سطح پر برابری حاصل کر سکتا ہے اور کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر زندہ رکھ سکتا ہے۔

کیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان کبھی تیسرے فریق نے ثالثی کی ہے؟

اگرچہ انڈیا نے ہمیشہ کشمیر کے مسئلے پر کسی تیسرے فریق کی ثالثی کی مخالفت کی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں دونوں ممالک کے درمیان جنگوں اور فوجی تناؤ کو روکنے میں بیرونی طاقتوں کا کردار رہا ہے۔

1965 کی جنگ:

انڈیا اور پاکستان کے درمیان دوسری جنگ 1965 میں ہوئی، جو سوویت یونین کی ثالثی سے جنوری 1966 میں تاشقند معاہدے پر ختم ہوئی۔

تاشقند معاہدہ (1966):

اس معاہدے کے تحت انڈین وزیرِ اعظم لال بہادر شاستری اور پاکستانی صدر محمد ایوب خان اس بات پر متفق ہوئے کہ دونوں ملک اپنی فوجوں کو پیچھے ہٹا لیں گے اور سفارتی و تجارتی تعلقات بحال کیے جائیں گے۔

کارگل جنگ (1999):

کارگل جنگ کے دوران پاکستان سے تعلق رکھنے والے فائٹرز اور فوجیوں نے لائن آف کنٹرول عبور کر کے انڈیا کے زیرِ انتظام علاقے میں پوزیشنیں سنبھال لیں۔

لیکن اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے پاکستانی وزیرِ اعظم نواز شریف پر سفارتی دباؤ ڈالا اور عالمی تنہائی کے خدشے کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو فوجیں واپس بلانے پر مجبور کیا۔

کارگل کی برفانی پہاڑیوں پر 10 ہفتے تک جاری رہنے والی لڑائی میں دونوں طرف تقریباً ایک ہزار فوجی ہلاک ہوئے۔

رابیہ اختر کہتی ہیں کہ ماضی میں تیسرے فریق کی ثالثی نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ان کے مطابق دونوں ممالک کے پاس بحران سے نمٹنے کے اپنے مؤثر طریقے نہیں ہیں، اسی لیے وہ کشیدگی کم کرنے کی ذمہ داری تیسرے فریقوں کو سونپ دیتے ہیں۔

انہوں نے وضاحت کی کہ عام طور پر یہ پسِ پردہ رابطے (backchannels) امریکہ، چین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے ممالک چلاتے ہیں۔

اگرچہ ان کوششوں سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوا، لیکن یہ دونوں ممالک کو بیک وقت پیچھے ہٹنے کا موقع دیتے ہیں تاکہ ان کی عزت بھی بچی رہے اور جنگ سے بچا جا سکے۔

موجودہ بحران کے بارے میں انہوں نے کہا اس وقت رسمی ثالثی کے بجائے، خاموش اور خفیہ سفارتی رابطے زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔

پروین ڈھنٹی (انٹرنیشنل کرائسس گروپ) کے مطابق اس وقت ثالثی کرنا مشکل ہو گا کیونکہ دونوں ممالک اندرونی دباؤ کی وجہ سے خطرات مول لینے کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں۔اس وجہ سے دونوں ملکوں کے لیے صورتحال مزید پیچیدہ ہو چکی ہے اور وہ اب تک کی سب سے بڑے بحران پر پہنچ چکے ہیں۔

ان کے مطابق حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے تمام بااثر اور دوست ممالک کی جانب سے مربوط اور مسلسل عالمی دباؤ کی ضرورت ہو گی۔












#انڈیا پاکستان کشیدگی
#کشمیر
#جنگ