
ایک سینئر سیکیورٹی ذرائع نے امریکی براڈکاسٹر سی این این کو بتایا کہ دونوں ملکوں کے درمیان فضائی جنگ میں 125 جنگی طیاروں نے حصہ لیا
ٹی آر ٹی ورلڈ کے مطابق پاکستانی حکام کی تصدیق کی ہے کہ 6 اور 7 مئی کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک بڑے فضائی جھڑپ میں 100 سے زائد جنگی طیاروں نے حصہ لیا، جو دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑی ’ڈاگ فائٹ‘ ہے۔
پاکستان کی فضائی فوج (پی اے ایف) نے اس واقعے کی تصدیق کی اور اس کی نوعیت پر تفصیل سے بیان دیا۔ انہوں نے کہا کہ 6 اور 7 مئی کو دونوں ممالک کے 100 سے زیادہ جنگی طیاروں نے کارروائی کی۔ یہ لڑائی ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہی اور اسے حالیہ عالمی فضائی تاریخ میں سب سے بڑی اور طویل فضائی جنگوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔
ایک سینئر سیکیورٹی ذرائع نے امریکی براڈکاسٹر سی این این کو بتایا کہ فضائی جنگ میں 125 جنگی طیاروں نے حصہ لیا اور میزائلوں کا تبادلہ 160 کلومیٹر (100 میل) تک کی دوری پر ہوا۔
پاکستانی ذرائع کے مطابق پاکستان اور انڈیا کے جنگی طیاروں نے ایک دوسرے کے فضائی حدود میں داخل ہونے کی کوشش نہیں کی۔
انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی انڈین کے زیر انتظام کشمیر میں سیاحوں پر ہونے والے حملے کے بعد بڑھی تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ فضائی تصادم مکمل طور پر سرحد پار جنگ میں تبدیل نہیں ہوا، کیونکہ دونوں فریقوں نے اپنے اپنے فضائی حدود میں رہ کر لڑائی کی تاکہ 2019 میں ہونے والے واقعے جیسے سیاسی اثرات سے بچا جا سکے، جب ایک انڈین پائلٹ کو مارا گیا، اور ایک کو پکڑ لیا گیا۔
سی این این کے حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ پانچ بھارتی طیاروں میں سے ایک کو پاکستان کے فضائی دفاعی نظام نے ڈائریکٹ نشانہ بنایا۔
اسلام آباد نے یہ بھی بتایا کہ اس جھڑپ کے دوران چینی ساختہ PL-15 ایئر ٹو ایئر میزائل کا استعمال کیا گیا۔ بھارتی فضائیہ نے ابھی تک اپنے نقصان کی تصدیق یا کوئی سرکاری جواب نہیں دیا۔
پاکستانی فضائیہ نے بھارتی رافیل طیاروں کے حوالے سے ایک مبینہ آڈیو ریکارڈنگز جاری کی ہیں جو فضائی جھڑپ کے دوران ریکارڈ کی گئی تھیں۔
اس انٹرسپٹڈ آڈیو میں ایک آواز سنی جا سکتی ہے جسے پاکستانی حکام نے بھارتی وِنگ کمانڈر کی قرار دیا ہے۔ وہ پرواز کے دوران اپنی ٹیم کے دیگر پائلٹس سے بار بار رابطے میں رہتے ہوئے صورتِ حال کا جائزہ لے رہے ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس وقت شدید دباؤ اور نقصان سے نمٹنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔
ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد کا مطلب یہ تھا کہ بھارتی رافیل طیارے کا کال سائن ’گاڈزیلا‘ تھا، اور چونکہ گاڈزیلا ایک خیالی جانور ہے جو ’ناپید‘ مانا جاتا ہے، تو یہ طیارہ بھی اب ناپید ہو گیا (یعنی مار گرایا گیا یا تباہ ہو چکا ہے)۔
ایئر وائس مارشل احمد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہمارے پاس ایک منصوبہ تھا۔ انڈیا نے کہا تھا کہ وہ رافیل طیارے استعمال کرے گا، اسی لیے ہم نے اس بار ان کی اصل طاقت — یعنی رافیلز — کو نشانہ بنایا۔ اسی لیے آپ دیکھ رہے ہیں کہ کتنی اچھی تعداد میں ان کے طیارے مار گرائے گئے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم اس سے بھی زیادہ طیارے مار سکتے تھے، لیکن ہم نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔‘
آخر میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ فوجی سازوسامان کامیابی نہیں دلاتا ہے، بلکہ تربیت، قیادت اور درست سمت ہی اصل اہمیت رکھتی ہے۔‘
انڈیا کی جانب سے ان دعوؤں پر ابھی تک کوئی ردعمل نہیں دیا گیا۔
یہ فضائی جھڑپ جدید فضائی جنگ کی بڑی کارروائیوں میں شمار
ٹی آر ٹی کے مطابق امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے دفاعی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ حالیہ انڈیا-پاکستان فضائی جھڑپ کو اعلیٰ حکام جدید فضائی جنگ کی ایک بڑی کارروائی قرار دے رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس مقابلے میں پائلٹس کو اپنے اہداف پر کئی بار حملے کرنے پڑے۔ پاکستان نے ممکنہ انڈین حملوں کے خدشے کے پیش نظر متاثرہ علاقوں میں پیشگی وارننگز جاری کیں تاکہ شہری نقصان کم سے کم ہو۔
نیوز ویک نے لکھا کہ اگر واقعی 100 سے زائد طیارے شامل تھے تو یہ جھڑپ دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑی فضائی لڑائی ہو سکتی ہے۔
اگرچہ ماضی کی بڑی فضائی لڑائیاں، جیسے بیٹل آف برٹن اور بیٹل آف کورسک، سیکڑوں یا ہزاروں طیاروں کے ساتھ لڑی گئیں، لیکن جدید دور میں دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایسی جھڑپ انتہائی نایاب ہے، خاص طور پر جب آفیشلی جنگ کا اعلان نہ ہو۔
بدھ کے روز ہونے والی فضائی جھڑپ کی شدت نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا ہے کہ کشمیر جیسے خوبصورت مگر حساس خطے میں معاملات کتنی تیزی سے بگڑ سکتے ہیں، چاہے کارروائیاں دونوں ممالک کی فضائی حدود تک ہی محدود کیوں نہ ہوں۔
صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے وائٹ ہاؤس نے جمعے کو کہا کہ امریکہ انڈیا اور پاکستان کی قیادت سے مسلسل رابطے میں ہے تاکہ ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کم کروائی جا سکے۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیوٹ نے کہا کہ ‘صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ جھڑپیں جتنا جلدی ممکن ہو، ختم ہوں۔‘