
پاکستان کا کہنا ہے کہ کسی بھی انڈین جارحیت کا فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی حکام کے پاس قابلِ اعتبار انٹیلی جنس معلومات موجود ہیں کہ انڈیا آئندہ 24 سے 36 گھنٹوں کے دوران پاکستان پر فوجی حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
یہ بیان اُس وقت سامنے آیا ہے جب انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں حملے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔بدھ کی صبح ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں عطااللہ تارڑ نے کہا کہ بھارت پہلگام حملے کو بہانہ بنا کر پاکستان پر حملے کی تیاری کر رہا ہے۔
وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے اپنے دعوے کے حق میں کوئی ٹھوس شواہد فراہم نہیں کیے اور انڈین حکومت نے بھی فوری طور پر ان الزامات پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
ایکس پر جاری بیان میں عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ ’کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ خطے میں کسی بھی سنگین نتائج کی مکمل ذمہ داری انڈیا پر عائد ہوگی۔‘
پاکستانی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے پیر کو خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ انڈیا کی جانب سے فوجی کارروائی کا امکان ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی الرٹ پر ہے، تاہم ایٹمی ہتھیار صرف اسی صورت استعمال کیے جائیں گے جب ہمارے وجود کو براہِ راست خطرہ لاحق ہو۔
انڈین وزارتِ خارجہ نے وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ کے تازہ ترین بیان پر روئٹرز کی جانب سے پوچھے گئے سوال کا جواب نہیں دیا۔
دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اُس وقت سے بڑھ گئی تھی جب انڈیا نے الزام عائد کیا کہ 22 اپریل کو پہلگام کے پہاڑی سیاحتی مقام پر ہونے والے حملے میں پاکستانی عناصر ملوث تھے۔
یہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں غیر ملکی سیاحوں پر دو دہائیوں میں ہونے والا سب سے خطرناک حملہ تھا اور انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی نے حملہ آوروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا وعدہ کیا ہے۔
حملے کی ذمہ داری ’دی ریزسٹنس فرنٹ‘ نامی گروپ نے قبول کی تھی، جسے پاکستان میں قائم لشکرِ طیبہ کا ذیلی گروپ تصور کیا جاتا ہے۔
تاہم اسلام آباد نے اس حملے میں کسی بھی قسم کے کردار کی تردید کی ہے اور واقعے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
حملے کے بعد دونوں ہمسایہ ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف سفارتی اقدامات کا سلسلہ شروع کر دیا، جن میں ویزوں کو واپس بلانا اور انڈین ایئرلائنز کے لیے پاکستانی فضائی حدود کی بندش شامل ہے۔
انڈیا نے سندھ طاس معاہدے سے بھی الگ ہونے کا اعلان کیا تھا۔
انڈیا کے اس اقدام کے خلاف پاکستان میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں اور پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ نئی دہلی کے فیصلے کے خلاف قانونی کارروائی کی تیاری کر رہا ہے۔
دونوں ممالک کے زیرِ انتظام کشمیر کو الگ کرنے والی 740 کلومیٹر طویل لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بھی فائرنگ کے تبادلے کی اطلاعات ہیں، جس کے بعد عالمی برادری کی جانب سے کشیدگی میں کمی کی اپیلیں سامنے آئی ہیں۔
منگل کے روز امریکہ نے انڈیا اور پاکستان پر زور دیا کہ وہ ذمہ دارانہ حل کی طرف بڑھیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارکو روبیو نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ہم دونوں فریقوں سے رابطے میں ہیں اور اُنہیں کہہ رہے ہیں کہ صورتحال کو مزید نہ بڑھائیں۔‘
ترجمان نے مزید کہا کہ مارکو روبیو منگل یا بدھ کے روز انڈیا اور پاکستان کے وزرائے خارجہ سے گفتگو کریں گے اور دوسرے ملکوں کے وزرائے خارجہ کو بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کریں۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف اور بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے بات کی۔ انہوں نے زور دیا کہ ایسی کسی لڑائی سے بچنا چاہیے جو خطرناک نتائج دے سکتی ہے۔