کشمیر پر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش، انڈیا کو مشکل میں

اقرا حسین
12:0713/05/2025, منگل
جنرل13/05/2025, منگل
ویب ڈیسک
انڈین وزیراعظم نریندر مودی، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
تصویر : اے پی / فائل
انڈین وزیراعظم نریندر مودی، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سیز فائر کا اعلان اس وقت کیا جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان لڑائی ایک مکمل جنگ میں تبدیل ہونے کے خطرے کے قریب پہنچنے والی تھی۔

انڈیا ہمیشہ سے مسئلہ کشمیر پر کسی تیسرے ملک کی مداخلت یا ثالثی کے خلاف رہا ہے۔ لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ انڈیا پاکستان کشیدگی کے دوران اعلان کیا کہ انڈیا اور پاکستان نے امریکہ کی مدد سے مکمل جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے میں دونوں ملکوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔

ٹرمپ کا یہ بیان انڈیا کے لیے حیران کن ہے کیونکہ انڈیا ہمیشہ کشمیر کو اپنا اندرونی معاملہ سمجھتا ہے اور کسی دوسرے ملک کو اس پر بات کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ کشمیر کا مسئلہ 1947 سے چل رہا ہے، جب پاکستان اور انڈیا نے آزادی حاصل کی تھی۔ دونوں ممالک کشمیر کو اپنا حصہ سمجھتے ہیں اور آج کشمیر ایک حصے پر انڈیا اور دوسرے حصے پر پاکستان کا کنٹرول ہے۔

دونوں ملکوں نے مسئلہ کشمیر پر کئی بار بات چیت کی لیکن کوئی مستقل حل نہیں نکلا۔ اب ٹرمپ کی مداخلت کی بات نے انڈیا کو ایک مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے۔ انڈیا نے پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ وہ پہلگام حملے میں ملوث ہے، لیکن پاکستان نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سیز فائر کا اعلان اس وقت کیا جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان لڑائی ایک مکمل جنگ میں تبدیل ہونے کے خطرے کے قریب پہنچنے والی تھی۔ دونوں ملک لڑاکا طیاروں، میزائلوں اور ڈرونز کے ذریعے ایک دوسرے کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنا رہے تھے۔

اگرچہ امریکی سفارتکاروں اور پسِ پردہ سفارتی کوششوں نے حالات کو مزید بگڑنے سے بچا لیا، لیکن ٹرمپ کی جانب سے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش نے انڈیا کو مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے۔

سابق انڈین سیکریٹری خارجہ شیام سرن نے کہا کہ انڈیا اس پیشکش کو قبول نہیں کرے گا، کیونکہ یہ انڈیا کے برسوں سے چلے آ رہے مؤقف کے خلاف ہے۔

پاکستان نے صدر ٹرمپ کی جانب سے کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کی پیشکش کو خوش آئند قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ایسی کسی بھی کوشش کی حمایت کرتا ہے جو مسئلہ کشمیر کو پرامن طریقے سے حل کرنے میں مدد دے۔

پالیسی ریسرچ سینٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر احمد حامد درانی کہتے ہیں کہ انڈیا پاکستان کو ایک کمزور ملک سمجھتا ہے، انڈیا سمجھتا ہےکہ کشمیر کے معاملے پر غیر ملکی مداخلت سے پاکستان کو سیاسی اہمیت یا برابری کا درجہ مل جائے گا، جو انڈیا نہیں چاہتا۔

انہوں نے کہا کہ انڈیا خود کو ایک علاقائی طاقت سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان سے براہِ راست بات چیت کرے۔

انڈیا کی اپوزیشن جماعت کانگریس نے حکومت سے وضاحت مانگی ہے کہ کیا اب انڈیا ثالثی کے لیے تیار ہو گیا ہے؟ اور سیزفائر کا اعلان واشنگٹن سے پہلے انڈیا نے کیوں نہیں کیا؟

انڈیا نے پاکستان پر دہشتگردی کی حمایت کا الزام لگا کر بات چیت سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنی سخت پالیسی پر قائم رہے گا۔

انڈین وزیر خارجہ نے واضح کیا ہے کہ انڈیا کسی بھی قسم کی دہشتگردی کے خلاف سخت مؤقف رکھتا ہے یعنی انڈیا فی الحال پاکستان کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

دوسری جانب پاکستان کا موٴقف بالکل مختلف ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر تیسرے فریق کی مداخلت کی پاکستان ہمیشہ خواہش کرتا رہا ہے کیونکہ انڈیا اور پاکستان ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے۔ پاکستان کو لگتا ہے کہ اب جب ایک عالمی طاقت (امریکہ) اس معاملے میں مداخلت کے لیے تیار ہے تو یہ پاکستان کے لیے اخلاقی فتح ہوگی۔

امریکہ نے حالیہ برسوں میں انڈیا کو چائنہ کے خلاف ایک اتحادی کے طور پر شامل کیا ہے۔ انڈیا چائنہ کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے کواڈ میں شامل ہے جو امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور انڈیا کا گروپ ہے۔

حالیہ دہائیوں میں واشنگٹن نے جدید ٹرانسپورٹ طیارے، ہیلی کاپٹر اور دیگر فوجی سازوسامان انڈیا کو فروخت کیے ہیں۔

پچھلی امریکی انتظامیہ کشمیر کے مسئلے کے حوالے سے انڈیا کی حساسیت سے واقف تھی اور اس میں زیادہ مداخلت سے گریز کرتی رہی۔ لیکن ٹرمپ کے دور میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ پالیسی اب بھی برقرار ہے۔

امریکہ انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور دو طرفہ تجارت 2024 میں تقریباً 130 ارب ڈالر (98 ارب پاؤنڈ) تک پہنچ گئی ہے۔ مودی کی حکومت اس وقت واشنگٹن کے ساتھ ایک تجارتی معاہدے پر بات چیت کر رہی ہے تاکہ ٹیکسز سے بچا جا سکے۔

دہلی کو اس وقت ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ انڈیا ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا یا امریکہ کی طرف سے کی جانے والی سیزفائر کو مقبول نہیں کرے گا یا کشمیر اور پانی کی تقسیم کے معاہدے جیسے متنازعہ مسائل پر بات چیت نہیں کرے گا۔ لیکن ساتھ ہی وہ امریکہ سے تجارتی فائدہ حاصل کرنے میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔

سیکیورٹی تجزیہ کار امتیاز گل کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں انڈیا اس پیشکش کو قبول نہیں کرے گا کیونکہ انڈیا شروع سے ہی نہیں چاہتا کہ کشمیر کے معاملے پر کوئی تیسرا ملک بات کرے‘۔

امتیاز گل کہتے ہیں کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ ایک کاروباری شخص ہیں اور ان کا مقصد صرف کاروبار کو بڑھانا ہے، نہ کہ سیاسی تنازعات میں الجھنا۔ اس لیے وہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کسی درمیانے راستے پر راضی کرانے کی کوشش کریں گے۔

اُن کے مطابق انڈیا مشرف کے کشمیر فارمولے کو دوبارہ سامنے رکھ سکتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں انڈیا اور پاکستان کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے قریب آگئے تھے لیکن عین موقع پر انڈیا پیچھے ہٹ گیا تھا، جنرل پرویز مشرف نے کشمیر سے متعلق چار اہم نکات پیش کیے تھے جن میں لائن آف کنٹرول کو انٹرنیشنل بارڈر تسلیم کرنا، کشمیر کو خودمختاری دینا، انڈیا اور پاکستان کے فوجیوں کا کمشیر سے نکل جانا اور دونوں طرف کے کشمیری مل کر ایسا نظام بنائیں گے تاکہ اہم مسائل پر پالیسی طے کر سکیں۔

امتیاز گُل کے مطابق تو اب دیکھنا ہوگا کہ انڈیا مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے لیے کیا شرائط رکھے گا۔



یہ بھی پڑھیں:







#انڈیا پاکستان کشیدگی
#جنگ
#جموں و کشمیر
#نریندر مودی
#جنوبی ایشیا