
اندازوں کے مطابق پچھلے سال تقریباً 2 لاکھ 80ہزار چینی طلبا امریکہ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے تمام چینی سٹوڈنٹس سمیت غیر ملکی طلبا کو ویزے جاری کرنے کا سلسلہ روک دیا۔
غیر ملکی طلبا کو ویزے نہ جاری کرنے کا اعلان امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو کی جانب سے جاری کردہ مراسلے میں ہوا جبکہ چینی طلبا کو ویزے جاری نہ کرنے کا اعلان سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کیا۔
غیر ملکی طلبا کے ویزے جاری نہ کرنے کا فیصلہ
امریکہ نے اپنے تمام سفارتخانوں اور قونصل خانوں کو ہدایت کی کہ وہ کسی بھی نئے طالبعلم یا ایکسچینج پروگرام کے ویزا کے لیے اپائنٹمنٹ فراہم نہ کریں، جب تک کہ اس بارے میں مزید ہدایات جاری نہ کی جائیں۔
مراسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ محکمہ خارجہ ایسے تمام ویزا درخواست گزاروں کے لیے سوشل میڈیا کی سخت جانچ پڑتال سے متعلق ہدایات جاری کرے گا۔
یہ اقدام اُن غیر ملکی شہریوں کے لیے ایک اور دھچکا ہے جو امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں، کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ جامعات اور طلبا دونوں پر دباؤ بڑھا رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے امریکی انتظامیہ نے ہارورڈ یونیورسٹی کو غیر ملکی طلبا کو داخلہ دینے کی اجازت واپس لے لی تھی، کیونکہ یونیورسٹی نے فلسطین کے حق میں ہونے والے مظاہروں اور مختلف قوموں اور نسلوں کو برابر موقع دینے کے پروگرامزکی حمایت کی، جو حکومت کو پسند نہیں آئی۔ تاہم ایک فیڈرل جج نے اس اقدام کو عارضی طور پر روک دیا ہے۔
مارکو روبیو ان غیر ملکی طلباء کے ویزے بھی ختم کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے کوئی معمولی قانونی خلاف ورزیاں کی ہوں، یا پھر فلسطین کے حق میں آواز بلند کی ہو۔
منگل کے روز امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے واضح طور پر ویزے روکنے والے حکم پر بات نہیں کی، لیکن اتنا ضرور کہا کہ امریکہ میں آنے والے ہر فرد کی سخت جانچ پڑتال کرے گا اور یہ عمل بہت اہم ہے۔
ٹیمی بروس نے کہا کہ ’صدر اور سیکریٹری روبیو کے مطابق ہمارا مقصد یہ ہے کہ یہاں آنے والے لوگ قانون کو سمجھیں، ان کا کوئی جرم کرنے کا ارادہ نہ ہو اور وہ ملک کی بہتری میں اپنا حصہ ڈالیں، چاہے وہ کچھ دن یا بہت عرصہ کے لیے رہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ اسٹوڈنٹ ویزا کے لیے درخواست دے رہے ہیں، وہ معمول کے مطابق عمل جاری رکھیں، لیکن یہ بھی توقع رکھیں کہ مزید سخت جانچ پڑتال ہوگی۔
مارکو روبیو کے اس مراسلے میں ویزا معطلی کی مدت کا وقت نہیں بتایا گیا، لیکن سفارتی عملے کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ آئندہ چند دنوں میں مزید ہدایات کا انتظار کریں۔
چینی طلبا کے ویزے منسوخ کرنے کا فیصلہ
دوسری جانب امریکہ نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک میں پڑھنے والے چینی طلبا کے ویزے بھی منسوخ کیے جائیں گے۔
اپنے ایکس اکاؤنٹ پر جاری ایک پیغام میں مارکو روبیو کا کہنا تھا کہ جن چینی طلبا کے ویزے منسوخ کیے جائیں گے ان میں وہ طلبا بھی شامل ہیں جن کے چینی کمیونسٹ پارٹی سے تعلقات ہیں یا وہ جو اہم شعبوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
روبیو کا مزید کہنا تھا کہ مستقبل میں چائنہ اور ہانگ کانگ کے ویزا درخواست گزاروں کی جانچ پڑتال بڑھانے کے لیے بھی نظر ثانی کی جائے گی۔
چائنہ، امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والے بین الاقوامی طلباء میں دوسرے نمبر پر ہے، جہاں سب سے زیادہ طلباء انڈیا سے آتے ہیں۔
اندازوں کے مطابق چائنہ کے امریکہ میں پڑھنے والے طلبا کی تعداد 2019 میں تقریباً 3 لاکھ 70 ہزار تھی، جو کہ 2024 میں کم ہو کر تقریباً 2 لاکھ 77 ہزار رہ گئی ہے۔یہ کمی دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی، امریکی حکومت کی چینی طلبا پر سخت نگرانی، اور کووِڈ-19 وبا کی وجہ سے ہوئی ہے۔
چائنہ میں امریکی سفیر اور سابق امریکی سینیٹر ڈیوڈ پرڈیو نے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ امریکہ میں ویزہ حاصل کرنے والے 99.9 فیصد چینی طلبا بغیر کسی مسئلے کے امریکہ داخل ہو جاتے ہیں۔ سال 2023 میں امریکہ نے چینی طلبا، اسکالرز، اور ان کے اہل خانہ کو ایک لاکھ 5 ہزار سے زائد ویزے جاری کیے۔ اس وقت ملک بھر کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تقریباً 2 لاکھ 92 ہزار چینی طلبا تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

الجزیرہ کے مطابق امریکہ میں پڑھنے والے بہت سے چینی طلبا اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا کمیونسٹ پارٹی سے کسی نہ کسی طرح تعلق ہونا بہت ممکن ہے‘۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’چائنہ میں 90 ملین کمیونسٹ پارٹی کے ممبرز ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا حکومت میں کوئی کردار نہیں ہوتا اور بہت سے عام لوگ ہیں۔‘
’ممکن ہے کہ ایسے خاندانوں کے طلبا کا کمیونسٹ پارٹی سے تعلق ہو، چاہے وہ خود پارٹی کے رکن نہ ہوں۔‘
چینی حکومت نے اب تک ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام پر کوئی عوامی ردعمل نہیں دیا ہے۔
امریکہ اور چائنہ کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں، خاص طور پر ٹرمپ کی حکومت کے دوران، جس نے چائنہ پر الزام لگایا کہ وہ امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدوں میں ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے اور اس پر ٹیکسز لگا کر تجارتی جنگ شروع کردی ہے۔
امریکی کانگریس کے ریپبلکن ارکان نے امریکہ اور چائنہ کی یونیورسٹیوں کے درمیان تعلقات کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا ہے۔
حال ہی میں کچھ امریکی قانون سازوں نے ڈیوک یونیورسٹی سے کہا کہ وہ چائنہ کی ووہان یونیورسٹی کے ساتھ پارٹنرشپ ختم کر دے، کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اس پارٹنرشپ کے ذریعے امریکہ کی ٹیکنالوجی چائنہ کی ملٹری انڈسٹری تک پہنچ رہی ہے۔