سیاسی مفاد، فاشزم اور جنگی جنون: نریندر مودی کی مسلمانوں اور پاکستان سے نفرت

13:158/05/2025, Perşembe
جنرل8/05/2025, Perşembe
ویب ڈیسک
 نریندر مودی کی سیاسی کیریئر کا قریب سے جائزہ لینے پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کی بنیاد نفرت پر رکھی گئی تھی
تصویر : ینی شفق / فائل
نریندر مودی کی سیاسی کیریئر کا قریب سے جائزہ لینے پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کی بنیاد نفرت پر رکھی گئی تھی

گاندھی کے عدم تشدد کے اصولوں سے جڑا ہوا انڈیا آج ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ جہاں اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے لیے زندگی ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔ نریندر مودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے تحت ہندوتوا نظریہ ایک سیاسی آلے سے تبدیل ہو کر سرکاری ریاستی پالیسی بن چکا ہے، جس کے نتیجے میں نفرت اب معمول بن چکی ہے۔

تحریر: ڈاکٹر فرقان حامِت

انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے مسئلے کے بعد شروع ہونے والی کشیدگی ایک بار پھر اس وقت شدت اختیار کر گئی جب 22 اپریل کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں مسلح افراد نے حملہ کیا تھا۔ انڈیا نے الزام عائد کیا کہ حملہ آور پاکستان سے آئے تھے جس کے بعد اس نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دیا، سفارتی تعلقات ختم کردیے اور وہاں موجود پاکستانی شہریوں کو نکال دیا۔ پاکستان نے ان اقدامات کو جنگی اقدام قرار دیتے ہوئے تجارتی رابطے ختم کر دیے، فضائی حدود بند کر دی اور پہلگام حملے میں ملوث ہونے سے متعلق تمام الزامات کی تردید کی ہے۔ اس کے ردعمل میں انڈیا نے 6 مئی کو ’آپریشن سندور‘ شروع کیا، جس میں پاکستان کے چھ علاقوں پر حملہ کیا۔ ان حملوں میں متعدد عام شہری ہلاک ہوئے اور کئی شدید زخمی ہوئے۔ جواب میں پاکستان نے اعلان کیا کہ اس نے انڈیا کے تین رافیل طیاروں سمیت پانچ طیارے مار گرائے ہیں۔

چونکہ دونوں ایٹمی ممالک ہیں، حالیہ پیش رفت نے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جو اس خطے کو جنگ کے دہانے پر لے آئی ہیں؟

کبھی جمہوریت، سیکولرازم اور گاندھی کے عدم تشدد کے اصولوں کا علمبردار انڈیا آج ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ خصوصاً اپنی مسلم آبادی کے لیے۔ نریندر مودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ہندوتوا نظریے کو حکومتی حکمت عملی میں تبدیل کر دیا ہے۔


گجرات کے قتل عام سے وزیرِ اعظم کے دفتر تک

نریندر مودی کی سیاسی کیریئر کا قریب سے جائزہ لینے پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کی بنیاد نفرت پر رکھی گئی تھی۔ ان کی مقبولیت 2002 کے گجرات فسادات سے شروع ہوئی جس میں خواتین اور بچوں سمیت تقریباً 2 ہزار مسلمان ہلاک ہوئے۔ مودی، جو اُس وقت گجرات کے وزیرِ اعلیٰ تھے، پر الزام تھا کہ انہوں نے جان بوجھ کر تشدد کو روکنے میں ناکامی کا مظاہرہ کیا اور بعض معاملات میں اس کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ہندوتوا نظریہ مکمل طور پر مودی کی شناخت کا حصہ بن گیا۔

ان واقعات کے بعد مودی نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے نظریاتی اسٹرکچر کو مضبوط کیا، جو ایک فاشسٹ اور انتہا پسند قوم پرست تنظیم ہے جن کا خواب انڈیا کو ’ہندو راشٹر‘ میں تبدیل کرنا ہے۔ اس خواب کی سب سے بڑی رکاوٹیں انڈیا میں موجود مسلمان اور پاکستان ہیں جو اس کا حصہ نہیں ہیں۔ نتیجتاً مسلمانوں کو تعلیم، معیشت اور عوامی زندگی میں منظم طریقے سے نظرانداز کیا جاتا ہے، جبکہ پاکستان کو مستقل دشمن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

بین الاقوامی تنظیمیں، انسانی حقوق کے گروپس اور آزاد صحافی طویل عرصے سے مودی کے سیاہ ماضی کو اجاگر کرتے آ رہے ہیں۔ اس کے باوجود مودی نے نہ تو قتل عام پر کبھی معافی مانگی اور نہ ہی ذرا برابر پشیمانی ظاہر کی۔ اس کے برعکس ان کےحامی مودی کی خاموشی کو ان کی طاقت سمجھتے ہیں۔


نفرت انگیز تقاریر کے ذریعے جیتے گئے انتخابات

مودی اور بی جے پی کی سیاست کی بنیاد ہی نفرت پر رکھی گئی ہے۔ ہر الیکشن سے پہلے اور بعد میں انڈیا میں مسلم مخالف تشدد، نفرت انگیز بیانات اور پاکستان کے خلاف جنگی نعرے شدت اختیار کر جاتے ہیں۔ 2014 اور 2019 کے انتخابات میں بی جے پی نے ’پاکستان کو سبق سکھانے‘ اور ’مسلمانوں کو ان کی جگہ دکھانے‘ جیسے نعروں پر مہم چلائی۔

پلوامہ حملے کے بعد بالا کوٹ پر فضائی حملہ اس کی واضح مثال ہے۔ اگرچہ یہ حملہ عسکری طور پر بے معنی تھا، مودی نے اسے ایک بڑی فتح قرار دیا اور سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا۔ اسی طرح 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت (آرٹیکل 370) کا خاتمہ بھی ایک ایسی ’فتح‘ کے طور پر پیش کیا گیا جو پاکستان اور مسلمانوں پر حاصل کی گئی ہو۔ دراصل، مودی ہر وقت ایک ’دشمن‘ تلاش کرتا ہے تاکہ عوام کی توجہ بیروزگاری، کسانوں کے احتجاج، مہنگائی اور معاشی بحران جیسے اہم مسائل سے ہٹائی جا سکے اور یہ دشمن اکثر مسلمان یا پاکستان ہوتا ہے۔

یہ ہیں وہ کچھ ریاستی پالیسیاں جو مودی کے دورِ حکومت میں مسلمانوں کے خلاف نافذ کی گئی ہیں: شہریت ترمیمی ایکٹ کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے ہندو، سکھ، جین اور بدھ مت کے پناہ گزینوں کو شہریت دی جاتی ہے، جبکہ مسلمانوں کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ اسی طرح، قومی شہریوں کا رجسٹر میں آسام میں لاکھوں مسلمانوں کو دستاویزات نہ ہونے کی بنا پر ’غیر ملکی‘ قرار دیا گیا، جس کے نتیجے میں کئی خاندان جو نسلوں سے بھارت میں رہ رہے تھے، اب شہریت کے لیے درخواستیں دے رہے ہیں۔

یکساں سول کوڈ بھی مسلمانوں کے خاندانوں کے قوانین کو نشانہ بناتا ہے اور ریاستی مداخلت کو بڑھاتا ہے۔ اس کے علاوہ بابری مسجد کا فیصلہ مسلمانوں کی ایک تاریخی مسجد کو مسمار کرنے کی صورت میں آیا اور عدالتوں نے اس کی جگہ ہندو مندر کی تعمیر کے لیے راستہ صاف کر دیا۔ گائے کے تحفظ کے نام پر بھیڑ کا قتل بھی ایک عام معاملہ بن چکا ہے، جس میں درجنوں مسلمانوں کو گائے کا گوشت رکھنے کے الزام میں بے رحمی سے قتل کیا گیا۔ اسی طرح مساجد، حجاب کو نشانہ بنانا ایک مہم کا حصہ بن چکا ہے، جس میں کرناٹک میں حجاب پہننے والی طالبات کو کلاسز سے روکا گیا اور اتر پردیش میں مسلم گھروں کو بغیر عدالتی احکام کے منہدم کیا گیا۔ ان تمام اقدامات کا پیغام واضح ہے: بھارت صرف ہندوؤں کے لیے ہے اور مسلمانوں کو یا تو دوسرے درجے کی حیثیت قبول کرنی ہوگی یا پھر انہیں بھارت چھوڑنا ہوگا۔


بین الاقوامی برادری خاموش ہے

اس المناک حقیقت کے باوجود بین الاقوامی برادری خاص طور پر مغربی ممالک، بھارت میں جاری ریاستی دہشت گردی پر خاموش ہے۔ اس کی چند اہم وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی وجہ اقتصادی مفادات ہیں: بھارت مغربی سرمایہ کاروں کے لیے ایک بڑا بازار اور پُرکشش منزل ہے۔ منافع کے لیے انسانی حقوق کو نظرانداز کرنا آسان سمجھا جاتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بھارت کو چین کے خلاف توازن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی بھارت کو چین کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک اسٹریٹجک پارٹنر سمجھتے ہیں، اس لیے وہ مودی کی داخلی آمرانہ پالیسیوں پر آنکھیں بند کیے رکھتے ہیں۔ تیسری وجہ بھارتی میڈیا کی پروپیگنڈہ مہم ہے۔ ریاستی زیر کنٹرول ذرائع ابلاغ عالمی سطح پر مسلمانوں کو ’دہشت گرد’، ’غدار‘ یا ’پاکستانی ایجنٹ‘ کے طور پر پیش کر کے عالمی رائے کو اپنے حق میں موڑ دیتے ہیں۔


فائدہ یا تباہی؟

اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر مودی حالیہ تنازع کے بعد پاکستان کے خلاف جنگ جاری رکھتا ہے تو اسے کیا فائدہ ہوگا؟

سب سے پہلے بھارت کی معیشت نازک حالت میں ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ اور ورلڈ بینک کی رپورٹس کے مطابق بے روزگاری پچھلے 45 سالوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ ایک مکمل جنگ معیشت کو تباہ کر دے گی اور سرمایہ کاروں کا اعتماد ختم کر دے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ جنگ نہ صرف جنوبی ایشیا کو بلکہ پورے دنیا کو متاثر کر سکتی ہے۔ ایٹمی تنازع عالمی امن کے لیے ایک تباہی ثابت ہوگا۔ اس کےعلاوہ بھارتی عوام اب مودی کی جنگی پالیسیوں کو سمجھنا شروع کر چکی ہے۔ اگر جنگ کے نتیجے میں شہری متاثر ہوئے تو عوامی ردعمل شدید ہو سکتا ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان کی فوج کی دفاعی صلاحیتیں مضبوط ہیں۔ اس کا بھارت کے جواب میں قوت دکھانے کا مظاہرہ دنیا نے ایک بار پھر دیکھا ہے۔ جیسے کہ 27 فروری 2019 کے واقعے میں پاکستان نے بھارتی جنگی طیاروں کو مار گرایا تھا۔ ایک مکمل جنگ بھارت کے لیے سنگین فوجی نقصانات کا سبب بن سکتی ہے۔


نسل کشی کے قدموں کے نشان

جو کچھ آج بھارت میں ہو رہا ہے، وہ صرف ایک اقلیت پر حملہ نہیں ہے، بلکہ پورے جمہوریت کے خلاف بغاوت ہے۔ اگر دنیا آج خاموش رہتی ہے، تو کل یہ آگ پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ مسلمانوں کا قتل، ان کے حقوق کی ضبطی، اور ان کی شناخت مٹانے کی کوشش نسل کشی کے آثار ہیں۔ یہ وقت ہے کہ بین الاقوامی تنظیمیں، انسانی حقوق کے گروپ اور عالمی ضمیر جاگیں۔ ورنہ تاریخ آج خاموش رہنے والوں سے سوال کرے گی، جیسے ہم ماضی کی خاموشیوں سے سوال کرتے ہیں۔

نریندر مودی کی سیاست ایک خطرناک راہ پر گامزن ہے۔ نفرت، فاشزم، اور انتہاپسندی کو بڑھا کر وہ قلیل مدتی سیاسی فوائد حاصل کر سکتے ہیں، مگر طویل مدتی نتائج تباہ کن ہوں گے۔ اگر بھارت کے 200 ملین مسلمان ظلم و ستم کے تحت زندگی گزارنا جاری رکھتے ہیں، تو داخلی امن ٹوٹ جائے گا اور پاکستان کے ساتھ موجودہ دشمنی پورے علاقے کو جنگ کے دہانے پر لے جائے گی۔

جو چیز آج کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ عالمی ادارے، خصوصاً اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں، بھارت کی مذہبی شدت پسندی اور پاکستان مخالف دشمنی کو سنجیدگی سے لیں۔ جنوبی ایشیا میں امن صرف اسی صورت میں ممکن ہے اگر بھارت اپنی توسیع پسندانہ، فاشسٹ اور اسلاموفوبک پالیسیوں کو ترک کرے۔






#انڈیا پاکستان کشیدگی
#نریندر مودی
#جنگ