
جنگ ختم کرنے کے لیے روس اور یوکرین کے درمیان پہلی براہ راست مذاکرات کے دوران روس نے یوکرین کی آزادی (خودمختاری) کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور صدر زیلنسکی کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کی کوشش کی۔
دونوں ممالک نے 2022 میں روسی حملے کے بعد پہلی بار بات چیت کے لیے آمنے سامنے بیٹھے تھے۔
یوکرین کے صدر زیلنسکی 15 مئی کو استنبول (ترکی) پہنچے تاکہ روس کے ساتھ بات چیت کر سکیں۔ یہ مذاکرات روسی صدر کی جانب سے چند دن پہلے دی گئی تجویز پر ہو رہے تھے اور زیلنسکی کے ساتھ ان کے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع بھی موجود تھے۔
تاہم روسی صدر پیوٹن خود مذاکرات میں شریک نہیں ہوئے، نہ ہی ان کی کابینہ کے ارکان آئے۔ انہوں نے ایک کم سطح کا وفد بھیجا، جس کی قیادت سفیر رودِیون میروشینک کر رہے تھے اور یہ وفد جنگ بندی پر دستخط کرنے کا اختیار نہیں رکھتا تھا۔
روس نے تلخ لہجے میں یوکرینی وفد کی قانونی حیثیت پر بھی سوال اٹھایا۔
روسی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا یہ کہہ رہی ہیں کہ زیلنسکی سنجیدہ مذاکرات نہیں کرنا چاہتے اور اپنے کچھ لوگوں کو بات کرنے سے روک رہے ہیں، اس لیے مذاکرات نہیں ہو پا رہے۔
روسی چیف مذاکرات کار رودِیون میروشنک نے 16 مئی کو کہا کہ ’ہم نے یوکرینی قوانین کا جائزہ لیا ہے اور اس کے مطابق ہمیں سمجھ آیا ہے کہ یوکرینی صدر زیلنسکی کی قانونی حیثیت یا اختیار اب ختم ہو چکا ہے۔
وہ اس بات کی طرف اشارہ کر رہے تھے کہ زیلنسکی نے پچھلے سال صدارتی انتخابات نہیں کروائے۔ یوکرینی آئین کے مطابق قومی بحران کی صورت میں زیلنسکی کو عہدے پر رہنے کی اجازت ہے اور یوکرینی پارلیمنٹ نے مارشل لا (فوجی حکومت) کے اختتام تک ان کی مدت کو بڑھا دیا ہے۔ لیکن روسی حکام اس توسیع کو استعمال کرکے زیلنسکی کو غیر قانونی ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
میروشنک نے کہا کہ ’خطرہ یہ ہے کہ ایسے معاہدے جو غیر قانونی طریقے سے کیے اور دستخط کیے جائیں، انہیں بعد میں مسترد کیا جا سکتا ہے۔‘
کرملن کے ترجمان دمتری پسکوف نے مذاکرات کے اگلے دن کہا کہ ’ہمارے لیے سب سے اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ یوکرینی طرف سے کون یہ دستاویزات دستخط کرے گا۔‘
لیکن روس کے اس موقف نے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے کہ ماسکو کسی بھی معاہدے سے بچ نکلنے کی تیاری کر رہا ہے۔
واشنگٹن میں قائم تحقیقی ادارے انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف وار نے لکھا ہے کہ ’یہ بیانیہ مہم روس کی کوششوں کا حصہ ہے تاکہ وہ اپنی مرضی کے وقت کسی بھی مستقبل کے امن معاہدے سے دستبردار ہونے کی شرائط قائم کر سکے۔‘
دونوں طرف سے کی گئی تجاویزات:
یوکرین نے جنگ بندی کی پیشکش کی اور اس کے بعد زیلنسکی اور پوٹن کے درمیان ملاقات کی تجویز دی۔
روس نے دونوں مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے، اس کے بجائے دونوں طرف سے ایک ہزار قیدیوں کے تبادلے کی تجویز دی اور پھر تحریری طور پر جنگ بندی کے منصوبے پیش کرنے کی بات کی۔
پوٹن کے معاون ولادیمیر میڈنسکی نے کہا کہ ’ہم نے اتفاق کیا کہ ہر فریق ممکنہ مستقبل کی جنگ بندی کا اپنا وژن تفصیل سے پیش کرے گا‘۔
اس دوران جنگ جاری رہے گی اور روس کو یقین ہے کہ یہ اس کے حق میں ہوگا۔
مذاکرات کے دوران روسی فوج نے یوکرین کے مشرق میں پوکروفسک اور ٹوریٹسک کے قریب حملے کیے اور کچھ علاقے قابو کر لیے۔
ہفتے کی رات روس نے یوکرین کے شہروں پر 273 ڈرون حملے کیے جو جنگ کا سب سے بڑا حملہ تھا۔
پیر کو روسی وزارت دفاع نے دعویٰ کیا کہ اس نے سمی اور ڈونیتسک میں دو بستیاں، میرینو اور نوو اولینووکا، قبضے میں لے لی ہیں۔