
دریائے جہلم میں انڈیا کی جانب سے پانی چھوڑے جانے کے باعث مظفرآباد اور قریبی علاقوں میں ہزاروں افراد کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ انڈس واٹر ٹریٹی کے معطل ہونے کی وجہ سے انڈیا کی طرف سے پانی کے بہاؤ یا ممکنہ سیلاب کے بارے میں جو معلومات پاکستان کو دی جاتی تھیں، وہ اب نہیں دی جا رہیں۔ جس سے مقامی آبادی کو مزید غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 72 سالہ رفیق حسین دریا کے کنارے اپنے چھ افراد پر مشتمل خاندان کے ساتھ رہتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ انڈیا نے جب پانی چھوڑا تو دریا آٹھ سے دس فٹ تک بلند ہو گیا۔ نہ کوئی وارننگ ملی، نہ تیاری کا وقت ملا‘۔
ان کے بیٹے حمید حسین نے بتایا کہ وہ دریا سے مچھلیاں پکڑ کر مقامی مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں، لیکن اچانک آنے والی طغیانی سے ان کا جال بہہ گیا اور انہیں بھاری مالی نقصان ہوا۔
سابق وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے کہا کہ انڈس واٹر ٹریٹی صرف انڈیا اور پاکستان کے درمیان نہیں بلکہ ورلڈ بینک کی شراکت کے ساتھ تین طرفہ معاہدہ ہے اور کسی ایک ملک کو اسے یکطرفہ طور پر ختم کرنے کا اختیار نہیں۔
یہ معاملہ اب صرف ملکوں کے درمیان جھگڑا نہیں رہا، بلکہ یہاں کے لوگوں کے لیے زندہ رہنے کا مسئلہ بن گیا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب حال ہی میں انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر میں سیاحوں پر حملہ ہوا ہے اور پاک انڈیا کشیدگی بڑھ گئی ہے۔
انڈیا کے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا ہے جبکہ اسلام آباد نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
اس حملے کے بعد انڈیا نے سندھ طاس معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کیا تھا۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے بعد انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطی پر پاکستان عالمی فورمز احتجاج ریکارڈ کرانے پر غور کرے گا۔ اس کے علاوہ پاکستان نے انڈیا کو نوٹس بھیجنے کا بھی فیصلہ کیا ہے جس میں معاہدہ معطل کرنے کی ٹھوس وجوہات مانگی جائیں گی۔