
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی پیر کو اسلام آباد پہنچے جہاں انہوں نے دو ایٹمی ملک پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں مدد کی پیشکش کی ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے صدر آصف علی زرداری اور وزیرِ اعظم شہباز شریف سے الگ الگ ملاقاتیں کیں، جنہوں نے ان کی امن کی کوششوں پر شکریہ ادا کیا۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’ہم کشیدگی کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور تمام فریقوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ صبر کا مظاہرہ کریں اور کشیدگی نہ بڑھائیں‘۔
البتہ یہ واضح نہیں ہوسکا کہ ایرانی وزیرخارجہ کا دورہ پاک انڈیا کشیدگی کی وجہ سے تھا یا کوئی اور وجہ تھی۔ تاہم ایرانی سفیر رضا امیری مغادام نے سرکاری میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے دونوں ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، اس معاملے کو ایجنڈے میں شامل کیا جائے گا۔‘
عباس عراقچی جمعرات کو انڈیا کا بھی دورہ کریں گے جس کی تصدیق انڈیا نے بھی کی ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا یہ دورے حالیہ کشیدگی سے پہلے ہی طے شدہ تھے۔
پاکستان کے وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ دونوں فریق علاقائی اور عالمی پیش رفت پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔
انڈیا کی وزارت خارجہ نے فوری طور پر اس معاملے پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ اس سے پہلے انڈیا کشمیر سے متعلق معاملات میں کسی بھی تیسرے فریق کی ثالثی کو مسترد کر چکا ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق پہلگام حملے کے بعد پاکستان نے کئی ممالک سے رابطہ کیا ہے۔ حالیہ رابطے میں پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے درمیان ٹیلیفونک گفتگو ہوئی۔
دفتر خارجہ نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ ’سرگئی لاوروف نے صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور مسائل کو حل کرنے کے لیے سفارتکاری کی اہمیت پر زور دیا۔‘ بیان میں مزید کہا گیا کہ انہوں نے دونوں فریقوں کو تحمل سے کام لینے اور کشیدگی سے گریز کرنے کی اپیل کی۔
اسلام آباد نے اقوام متحدہ میں اپنے نمائندے کو ہدایت کی ہے کہ وہ سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی کوشش کریں تاکہ انڈیا کے ’جارحانہ اقدامات‘ سے پیدا ہونے والے خطرات پر عالمی ادارے کو بریفنگ دی جا سکے، جو خطے کے امن و سلامتی کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔
ایران کا کردار کتنا اہم ہے؟
لندن کی صحافی لین او ڈونل نے نیوز ایجنسی ویون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے انڈیا اور پاکستان دونوں کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں۔ اس لیے وہ خود کو ایک غیر جانبدار ملک کے طور پر پیش کرتا ہے۔ کشمیر کے مسئلے میں ایران کا کوئی براہِ راست تعلق نہیں ہے، لیکن وہ خطے میں امن کی بات کرتا ہے، جس سے اس کا کردار اہم بن سکتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مگر ایران کے اپنے کچھ مفادات بھی ہیں، جو اس کی غیر جانبداری پر سوال اٹھا سکتے ہیں۔ چونکہ ایران کو امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سے تنہائی کا سامنا ہے، اس لیے وہ چاہتا ہے کہ وہ جنوبی ایشیا جیسے اہم خطے میں امن قائم کرنے والا ملک بن کر اپنا اثر بڑھائے۔ یہ کردار ایران کو انڈیا اور پاکستان دونوں کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے میں مدد دے گا اور وہ کسی ایک پر زیادہ انحصار نہیں کرنا چاہتا۔
انہوں نے بتایا کہ تاہم انڈیا ہمیشہ کہتا رہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ صرف انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہے اور کسی تیسرے ملک کو اس میں دخل نہیں دینا چاہیے۔ پاکستان البتہ عالمی ثالثی کے لیے تیار ہے۔ اس لیے ایران اچھی نیت ثالث کا کردار ادا کررہا ہے، لیکن دونوں ملکوں کے مختلف رویوں کی وجہ سے اس کی کوششیں کامیاب ہونا مشکل ہیں۔
لین کا کہنا تھا کہ ’ایران پہلا ملک تھا جس نے حالیہ کشیدگی میں اپنے وزیر خارجہ کو دونوں ملکوں میں بھیجا، جبکہ مغربی ممالک صرف بیانات دیتے رہے۔ امریکہ ایک طرف انڈیا کا ساتھ دیتا ہے اور دوسری طرف پاکستان کو اسلحہ بھی فراہم کرتا ہے، جو معاملے کو مزید الجھا دیتا ہے‘۔
ان کا کہنا ہے کہ ایران کی ثالثی کی کوششیں تبھی کامیاب ہوں گی جب دونوں ممالک، انڈیا اور پاکستان، اسے قبول کریں۔ لیکن چونکہ انڈیا کے امریکہ کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات ہیں اور ایران کی مغربی دنیا سے کشیدگی بڑھ رہی ہے اس لیے ہوسکتا ہے کہ انڈیا ایران پر اعتماد کرنے میں محتاط رویہ اختیا رکرے۔