
پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف نے فروری میں آذربائیجان اور اپریل میں ترکیہ کا دورہ کیا تھا۔
تاہم اس ہفتے وہ ایک بار پھر انہی دونوں ممالک میں موجود ہیں، پانچ روزہ چار ملکی سفارتی مہم کے تحت شہباز شریف آذربائیجان، ترکیہ، ایران اور تاجکستان کا دورہ کررہے ہیں، جہاں وہ جمعرات اور جمعے کو اعلیٰ سطحی مذاکرات کریں گے۔
شہباز شریف کے ہمراہ آرمی چیف عاصم منیر اور نائب وزیرِاعظم اسحاق ڈار بھی موجود ہیں۔
وزیرِاعظم شہباز شریف کے پچھلے دوروں کے مقابلے میں اس بار مقاصد اور امور مکمل طور پر مختلف ہیں۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان چار روزہ کشیدگی کے دو ہفتے بعد اب سفارتکاری جنوبی ایشیائی حریفوں کے درمیان نیا محاذ بن چکی ہے۔
انڈیا نے ایک عالمی سفارتی مہم کا آغاز کر دیا ہے، جس کے تحت اس نے 30 سے زائد ممالک میں وفود بھیجے ہیں۔
انڈیا کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ’ہم دنیا سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سرحد پار دہشت گردی کے ذمے دار عناصر کو جوابدہ ٹھہرائیں، ان لوگوں کو جو گزشتہ 40 سال سے انڈیا کے خلاف اس عمل میں ملوث رہے ہیں، یعنی پاکستان ان کے اقدامات کو بے نقاب کیا جانا چاہیے‘۔
22 اپریل کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں مسلح افراد نے فائرنگ کر کے 26 افراد کو قتل کر دیا، جن میں زیادہ تر سیاح تھے۔ انڈیا نے اس حملے کا الزام دی ریزسٹنس فرنٹ پر لگایا، جس کے بارے میں دعویٰ ہے کہ اس کا تعلق پاکستان میں موجود لشکرِ طیبہ سے ہے، جسے اقوامِ متحدہ نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔ نئی دہلی نے ان حملوں میں پاکستان کو بھی ملوث قرار دیا۔
پاکستان نے یہ الزامات مسترد کرتے ہوئے واقعے کی ’شفاف، قابلِ اعتماد اور آزادانہ‘ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
پھر 7 مئی کو انڈیا نے پاکستان اور پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر میں ’دہشت گردی کے ڈھانچوں‘ کو نشانہ بناتے ہوئے میزائل حملے کیے۔ لیکن پاکستان کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں عام شہری، مساجد اور اسکول نشانہ بنے۔ انڈین حملوں میں 50 سے زائد افراد مارے گئے، جن میں کم از کم 11 سیکیورٹی اہلکار شامل تھے۔
اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ڈرون حملے شروع ہوئے، اور 10 مئی کو دونوں نے ایک دوسرے کے فوجی اڈوں پر میزائل فائر کیے۔ دونوں ممالک مکمل جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے تھے، لیکن بعدازاں امریکہ نے دونوں ملکوں کے درمیان سیز فائر کا اعلان کیا۔
اب حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان دنیا کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ وہ امن چاہتا ہے، جبکہ انڈیا وہ ملک ہے جو جھگڑا اور کشیدگی بڑھا رہا ہے۔ پاکستان اپنی پرامن تصویر پیش کر کے انڈیا کے الزامات کا جواب دینا چاہتا ہے۔
بدھ کے روز وزیرِاعظم شہباز شریف نے کہا کہ اگر انڈیا سنجیدگی دکھائے تو پاکستان تمام معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔
آذربائیجان کے شہر لاچین میں ایک سہ فریقی سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شریف نے کہا کہ اگر انڈیا تمام مسائل، بشمول ’دہشت گردی کے خلاف اقدامات‘ پر تعاون کرے تو دوطرفہ تجارت دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے عاجزی سے کہا ہے کہ ہم خطے میں امن چاہتے ہیں، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم مل کر بات چیت کریں اور وہ مسائل حل کریں جن پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ ان میں سب سے اہم مسئلہ کشمیر ہے، جس کا حل اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہونا چاہیے۔‘
کشمیر 1947 میں پاکستان اور انڈیا کی آزادی کے بعد سے دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان تنازع کی بنیادی وجہ ہے۔
1948 میں اقوامِ متحدہ کی ایک قرارداد کے تحت وہاں رائے شماری ہونی تھی تاکہ کشمیری عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں، لیکن آٹھ دہائیاں گزرنے کے باوجود یہ رائے شماری ابھی تک نہیں ہو سکی۔
لیکن حکام اور ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سفارتی کوششوں کے پیچھے اور بھی وجوہات ہیں۔
اس وقت انڈیا کے جو سفارتی وفود دنیا بھر کے دورے پر ہیں، ان میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان شامل ہیں، جن میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اپوزیشن جماعت انڈین نیشنل کانگریس (آئی این سی) بھی شامل ہیں۔ اس طرح انڈیا دنیا کے سامنے ایک متحد مؤقف پیش کر رہا ہے۔
اس کے برعکس پاکستان کی موجودہ سفارتی مہم کی قیادت اعلیٰ حکومتی عہدیدار کر رہے ہیں، جن میں شہباز شریف اور آرمی چیف عاصم منیر شامل ہیں، جنہیں ملک کا سب سے طاقتور شخص سمجھا جاتا ہے۔
سابق وفاقی وزیر برائے خارجہ امور خرم دستگیر خان اگلے مہینے امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کے مرکزی دفاتر برسلز کے دورے پر جانے والے پاکستانی وفد کا حصہ ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ شہباز شریف، عاصم منیر اور اسحاق ڈار کا موجودہ دورہ کم از کم جزوی طور پر پاکستان کی صلاحیت کو اجاگر کرنے کے لیے ہے کہ وہ ایک بڑے دشمن کے خلاف جدید جنگ لڑ سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ایسے ممالک ہیں جو جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستان نے کون سی صلاحیتیں استعمال کیں اور انڈیا کے پاس کیا تھا۔‘
قائدِاعظم یونیورسٹی میں ماہر تعلیم اور سیکیورٹی تجزیہ کار محمد شعیب کا کہنا ہے کہ مودی کے بیانات زیادہ تر انڈیا کے اندر کے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔
انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ انڈین سفارتی ٹیمیں ممکنہ طور پر پاکستان کے بیانات پر توجہ نہیں دیں گی۔ وہ صرف پاکستان کو دہشت گردی کا ذمے دار ٹھہرانے اور اپنا کیس مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز کریں گی۔ اس دوران پاکستانی وفد ممکنہ طور پر مودی کے بیانات اور انڈس واٹر ٹریٹی سے متعلق بین الاقوامی قوانین کا سہارا لے کر اپنے دلائل کو مضبوط بنائے گا۔‘