
اسرائیل نے غزہ میں ’محدود‘ امدادی خوراک داخل کرنے کی اجازت دینے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے یہ بیان اس وقت جاری کیا جب اسرائیلی فوج نے غزہ کے ساوٴتھ اور نارتھ حصوں میں ’وسیع پیمانے پر زمینی آپریشن‘ شروع کرنے کا اعلان کیا۔
مارچ سے اسرائیل نے غزہ پر امدادی سامان (جیسے خوراک، ادویات اور ایندھن) جانے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ اس پابندی کے باعث غزہ میں قحط جیسی خطرناک صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ دنیا بھر سے اسرائیل پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ یہ پابندی ختم کرے۔
اسی دوران اسرائیل نے غزہ میں اپنے فوجی حملے مزید تیز کر دیے ہیں۔ فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ صرف پچھلے ایک ہفتے میں سینکڑوں لوگ ان حملوں میں مارے گئے ہیں، جن میں سے 130 افراد ایک ہی رات میں جان سے گئے۔
نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ ’اسرائیلی ڈیفنس فورسز کی تجویز اور حماس کو شکست دینے کے لیے حملے تیز کررہے ہیں۔ اسرائیل غزہ میں بھوک کے بحران کو روکنے کے لیے عوام کو خوراک کی محدود مقدار فراہم کرنے کی اجازت دے گا۔‘
اقوام متحدہ کے امدادی سربراہ ٹام فلیچر کے ترجمان ایری کانیکو نے تصدیق کی کہ اسرائیلی حکام نے ایجنسی سے رابطہ کیا ہے تاکہ ’محدود امدادی فراہمی‘ کو دوبارہ شروع کیا جا سکے اور کہا کہ زمینی حالات کے پیش نظر لاجسٹک معاملات پر بات چیت جاری ہے۔
اسرائیل نے یہ اعلان ایسے وقت میں کیا جب دونوں جانب کے ذرائع نے بتایا کہ قطر میں اسرائیل اور فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے نئے دور میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
نیتن یاہو نے کہا کہ مذاکرات میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے کے حوالے سے بات چیت ہوئی، جس میں حماس کو غزہ سے نکالنے اور علاقے کو غیر مسلح کرنے کی شرط بھی شامل تھی، لیکن یہ شرائط حماس نے پہلے ہی ماننے سے انکار کردی تھیں۔
اسرائیل کی فوج نے گزشتہ ہفتے غزہ میں 670 سے زیادہ حماس کے ٹھکانوں پر حملے کیے، تاکہ نئے زمینی آپریشن کو سپورٹ کیا جا سکے، جس کا مقصد علاقے کے کچھ حصوں پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ فوج کا کہنا ہے کہ اس کارروائی میں انہوں نے درجنوں حماس فائٹرز کو ہلاک کیا ہے۔