
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ترک صدر طیب اردوان کے درمیان پیر کو ٹیلیفون پر بات ہوئی جس میں دونوں رہنماوٴں نے روس-یوکرین جنگ کے خاتمے، شام اور غزہ کی صورتحال سمیت کئی اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں ٹرمپ نے بتایا کہ ترک صدر نے انہیں ترکیہ کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے اور اردوان بھی واشنگٹن آئیں گے، تاہم حتمی تاریخوں کا ذکر نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب اردوان نے ایکس پر بتایا کہ دونوں نے ایک دوسرے کو دورے کی دعوت دی ہے۔
اردوان نے کہا کہ ’میرے دوست ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ آج ٹیلیفونک گفتگو ہوئی، وہ بہت مفید اور جامع تھی۔‘
ترکیہ اور امریکہ کے دوطرفہ تعلقات پچھلے دس سالوں میں آہستہ آہستہ خراب ہو گئے تھے، جن کی وجہ شام سمیت اہم پالیسی امور پر اختلافات اور انقرہ کے ماسکو کے ساتھ گہرے تعلقات تھے۔
جب ترکیہ نے نیٹو میں شمولیت اختیار کی تو سابق صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے دوران امریکہ-ترکیہ تعلقات پارٹنرشپ سے بدل کر ایک تجارتی نوعیت کے ہوگئے تھے۔
ٹرمپ کے دور میں انقرہ کو امید ہے کہ واشنگٹن سے تعلقات بہتر جائیں گے، حالانکہ یہی ریپبلکن صدر تھے جنہوں نے 2020 کے آخر میں ترکیہ پر روسی ایس-400 میزائل دفاعی نظام کی خریداری پر پابندیاں عائد کی تھیں۔
ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ اقتدار میں اردوان کے ساتھ اپنے تعلقات کو چاندار قرار دیا تھا، اس بار انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے تعاون کریں گے۔ ٹرمپ نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ ’میں اردوان کے ساتھ کام کرنے کا منتظر ہوں تاکہ روس اور یوکرین کے درمیان خطرناک جنگ کا فوراً خاتمہ کیا جائے۔‘ اردوان نے جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ کی کوششوں کا خیرمقدم کیا۔
دونوں جانب سے اس بات کی تفصیلات نہیں دی گئیں کہ انقرہ اس عمل میں کیا مخصوص کردار ادا کرے گا، حالانکہ ریپبلکن صدر نے اپنی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے دورِ حکومت کے پہلے دن ہی جنگ ختم کردیں گے۔
جنوری میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ٹرمپ نے یوکرین جنگ کے بارے میں امریکی پالیسی بدل دی تھی۔ انہوں نے روس سے زیادہ یوکرین پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالا، یاد رہے کہ روس نے 2022 میں یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ٹرمپ نے جنگ کا الزام یوکرین پر عائد کیا، حالانکہ پہلے ماسکو نے یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ حالیہ دنوں میں انہوں نے روسی صدر پوتن پر بھی تنقید کی اور جنگ ختم کرنے کے لیے ان پر سوالات اٹھائے۔
ترکیہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اردوان نے فون کال کے دوران غزہ میں انسانی امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ انقرہ جنگ بندی اور پائیدار امن کے قیام کے لیے تعاون فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ ترک رہنما نے ٹرمپ کو بتایا کہ انقرہ شام کی علاقائی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے کام کر رہا ہے اور دمشق کے لیے پابندیوں میں نرمی پر غور کرنے کی درخواست کی۔