انگلینڈ: سفید فام برطانوی شخص نے فٹبال شائقین پر گاڑی چڑھا دی، 27 افراد ہسپتال منتقل

07:4427/05/2025, Salı
جنرل27/05/2025, Salı
AA
 برطانوی پولیس نے دہشت گردی کا امکان مسترد کر دیا، حملہ آور سفید فام برطانوی شہری تھا۔
تصویر : فوٹو سورس / جیٹی امیجز
برطانوی پولیس نے دہشت گردی کا امکان مسترد کر دیا، حملہ آور سفید فام برطانوی شہری تھا۔

برطانوی پولیس نے دہشت گردی کا امکان مسترد کر دیا، حملہ آور سفید فام برطانوی شہری تھا۔

انگلینڈ کے شہر لیورپول کے علاقے میں 53 سالہ سفید فام برطانوی شخص نے لیورپول فٹبال کلب کی پریمیئر لیگ میں فتح کا جشن منانے والے شائقین کے ہجوم پر چڑھا دی۔ جس کے نتیجے میں تقریباً 27 افراد زخمی ہو گئے، جن میں چار بچے بھی شامل ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ ’53 سالہ سفید فام برطانوی شخص گاڑی ڈرائیو کررہا تھا۔ جس شخص کا تعلق لیورپول کے علاقے سے تھا۔‘

حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات دہشت گردی کے واقعے کے طور پر نہیں کی جا رہی ہیں۔



تقریباً 20 افراد کو جائے وقوعہ پر طبی امداد دی گئی، جبکہ ایمبولینس حکام کے مطابق 27 افراد کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔

زخمیوں میں ایک بچہ اور ایک بالغ شخص کی حالت تشویشناک ہے۔

ایک بچہ سمیت چار افراد وین کے نیچے پھنس گئے تھے، جنہیں نکالنے کے لیے فائر فائٹرز نے گاڑی کو اٹھایا۔

​​تاحال یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ واقعہ کیوں پیش آیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے کو دہشت گردی نہیں سمجھا جا رہا۔

ڈپٹی چیف کانسٹیبل جینی سمز نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ہمیں یقین ہے کہ یہ واقعہ ایک شخص نے اکیلے سرانجام دیا ہے۔ یہ دہشت گردی کا واقعہ نہیں لگتا۔ ‘


سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جشن کے اختتام پر، جب کھلاڑی کھلی چھت والی بس کے ذریعے شہر میں ٹرافی دکھا رہے تھے، اسی دوران لیورپول میں ایک سیاہ رنگ کی گاڑی بھی کھڑی دکھائی دی۔

پھر اچانک گاڑی تیز رفتار سے آگے بڑھی اور کئی افراد کے اوپر چڑھا دی۔ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں گاڑی کی ٹکر سے لوگوں کو ہوا میں اچھلتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔

جب گاڑی رکی، تو مشتعل شائقین اس کی طرف لپکے اور گاڑی کے شیشے توڑنے لگے، تاہم پولیس افسران نے مداخلت کرتے ہوئے انہیں ڈرائیور تک پہنچنے سے روک دیا۔

ہجوم میں موجود ایک عینی شاہد ہیری راشد اپنی اہلیہ اور دو کم سن بیٹیوں کے ساتھ پریڈ میں شریک تھے، انہوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ گاڑی ان سے صرف تین میٹر کے فاصلے پر آ کر لوگوں کو کچلنے لگی۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ سب بہت تیزی سے ہوا۔ شروع میں ہمیں صرف 'پاپ، پاپ، پاپ' کی آوازیں آئیں، جیسے لوگ گاڑی کے بونٹ سے ٹکرا کر گر رہے ہوں۔‘

راشد نے مزید بتایا کہ ’جب ہجوم گاڑی کی طرف بڑھا تو ڈرائیور رکا نہیں بلکہ باقی لوگوں کو روندتا ہوا آگے بڑھتا رہا‘۔

انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ڈرائیور نے یہ سب جان بوجھ کر کیا۔

گزشتہ سال جولائی میں، لیورپول کے قریب ساوتھ پورٹ میں ایک نوعمر لڑکے نے ڈانس کلاس کے دوران تین لڑکیوں کو چاقو مار کر قتل کر دیا تھا اور دو بالغ افراد سمیت 10 دیگر کو زخمی کر دیا تھا۔ سوشل میڈیا پر اس واقعے کے بعد غلط معلومات پھیلائی گئیں، جن میں دعویٰ کیا گیا کہ حملہ آور ایک پناہ گزین تھا، حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ برطانیہ میں پیدا ہونے والا شہری تھا۔

اس کے بعد انگلینڈ اور شمالی آئرلینڈ میں فسادات پھوٹ پڑے، جن میں مسلمانوں اور ہوٹلوں میں رہائش پذیر پناہ گزینوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ پرتشدد واقعات تقریباً ایک ہفتے تک جاری رہے۔

برطانوی وزیراعظم کئیر اسٹارمر نے لیورپول واقعے کی تصدیق کی ہے۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں کہا کہ ’لیورپول کے مناظر انتہائی افسوسناک ہیں، میری ہمدردیاں تمام زخمیوں اور متاثرہ افراد کے ساتھ ہیں۔ میں پولیس اور ایمرجنسی سروسز کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اس چونکا دینے والے واقعے پر فوری ردعمل دیا۔‘

لیورپول ایف سی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری بیان میں کہا کہ وہ پولیس کے ساتھ براہِ راست رابطے میں ہے۔

ٹیم نے کہا کہ ’ہماری دعائیں اور نیک تمنائیں ان تمام افراد کے ساتھ ہیں جو اس سنگین واقعے سے متاثر ہوئے ہیں۔‘

پریمیئر لیگ نے بھی ایک بیان جاری کرتے ہوئے لیورپول میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے پر شدید دکھ اور صدمے کا اظہار کیا۔








#انگلینڈ
#لیورپول
#فٹ بال