
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قومی سلامتی کی ٹیم نے یمن میں حوثی گروپ پر حملوں کا منصوبہ غلطی سے صحافی کے ساتھ شئیر کردیا۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق امریکی انتظامیہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ ایک صحافی کو غلطی سے ایک ایسے گروپ چیٹ میں شامل کرلیا گیا جہاں امریکی حکام حوثیوں کے خلاف حملے کی پلاننگ کے بارے میں بات کررہے تھے۔
دی اٹلانٹک میگزین کے ایڈیٹر اِن چیف جیفری گولڈ برگ کے مطابق انہیں ’سگنل‘ میسجنگ ایپ کے ایک گروپ میں شامل کیا گیا تھا، جس میں 18 حکومتی عہدیدار موجود تھے، جن میں ممکنہ طور پر وزیر خارجہ مارکو روبیو، نائب صدر جے ڈی وِنس، اور وزیر دفاع پیٹ ہیگسیٹھ بھی شامل تھے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 15 مارچ کو ان حملوں کا اعلان کیا تھا، لیکن دی اٹلانٹک کے ایڈیٹر نے کہا کہ انہیں امریکا کی جانب سے یمن میں حوثی اہداف پر حملے سے متعلق دو گھنٹے پہلے ہی معلوم ہو گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ گروپ چیٹ کا نام ’حوثی پی سی سمال گروپ‘ تھا۔ ’یہ معلومات مجھے ایک خفیہ پیغام رسانی ایپ ’سگنل‘ پر ’مائیکل والٹز‘ نامی صارف سے موصول ہوئیں، جو کہ صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر کا نام بھی ہے۔ گولڈ برگ کو پہلے شک تھا کہ آیا یہ اصلی مائیکل والٹز ہیں یا کوئی اور‘۔
گولڈ برگ نے لکھا کہ ’میں نے اس طرح کی سیکیورٹی غلطی پہلے کبھی نہیں دیکھی۔‘ انہوں نے وائٹ ہاؤس کو اس سیکیورٹی خلاف ورزی کے بارے میں اطلاع دی اور بعدازاں وہ چیٹ سے لیفٹ ہوگئے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے بھی اس کی تصدیق کی۔ قومی سلامتی کونسل نے میڈیا کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ ’اس وقت رپورٹ کیے گئے میسیجز اصل معلوم ہوتے ہیں اور اس بات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ ایک غیر متعلقہ شخص کو چیٹ میں کیسے شامل کر لیا گیا‘۔ تاہم بیان میں یہ بھی کہا کہ اس گروپ چیٹ میں سینئر حکام آپس میں پالیسی پر بات کر رہے تھے اور مل کر فیصلے کر رہے تھے۔
گروپ چیٹ میں کیا کہا گیا؟
جیفری گولڈ برگ نے کہا کہ وزیر دفاع پیٹ ہیگسیٹھ کے نام سے اکاوٴنٹ نے گروپ میں ایک پیغام بھیجا، جس میں حوثیوں پر حملے کے اہداف، اس میں استعمال ہونے والے امریکی ہتھیار اور حملوں کی ترتیب کی مکمل تفصیلات شامل تھیں۔
پیغام میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ حملہ اگلے دو گھنٹوں میں کیا جائے گا۔
امریکہ کا حوثیوں پر حملہ
امریکا نے 15 مارچ کو حوثیوں پر حملہ کیا تھا، جس کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ انہوں نے یمنی گروپ کے خلاف ’فیصلہ کن اور طاقتور‘ کارروائی کا حکم دیا ہے۔امریکا کافی عرصے سے حوثیوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ سابق صدر جوبائیڈن کے دور میں بھی حوثیوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
اکتوبر 2023 سے حوثی بحیرہ احمر اور اس کے آس پاس کے پانیوں میں اسرائیلی جہازوں اور تجارتی بحری جہازوں پر حملے کر رہے ہیں، تاکہ غزہ میں اسرائیل کی جنگ کے خلاف احتجاج کر سکیں۔
تقریباً 100 تجارتی جہاز حوثیوں کے حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ تاہم جنوری میں جب غزہ میں مختصر مدت کی جنگ بندی ہوئی، تو حوثیوں کے حملے بھی رک گئے تھے۔
اس کے باوجود ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت کے آغاز میں اعلان کیا کہ وہ حوثیوں کو ’غیر ملکی دہشت گرد تنظیم‘ قرار دیں گے۔
پھر 2 مارچ کو اسرائیل نے غزہ میں انسانی امداد کو روک دی، جہاں پہلے ہی خوراک اور طبی سہولیات کی شدید کمی تھی۔ اس کے جواب میں حوثیوں نے خبردار کیا کہ اگر امداد روکی گئی تو وہ حملے کریں گے۔