
ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں 8 پاکستانی کار مکینکس کو قتل کردیا گیا۔ ایرانی میڈیا کے مطابق ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان میں افغان بارڈر کے قریب مسلح افراد نے ورکشاپ پر فائرنگ کی۔
عرب نیوز کے مطابق ایران میں پاکستانی سفارتخانے نے ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں آٹھ پاکستانی جاں بحق ہونے کے واقعے کی مذمت کی ہے۔ بیان میں خطے سے ’دہشت گردی‘ کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
پاکستان نے ہفتے کی رات دیر گئے تصدیق کی کہ ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان میں اس کے آٹھ پاکستانی شہریوں کو قتل کر دیا گیا ہے۔ افغان خبر رساں ادارے خامہ پریس کے مطابق یہ حملہ ہفتہ کی علی الصبح مہرسِتان ضلع کے ایک گاؤں میں ہوا، جو ایران-پاکستان سرحد کے قریب واقع ہے۔ رپورٹ کے مطابق جاں بحق افراد کا تعلق مکینک کے پیشے سے تھا۔
علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان نیشنل آرمی (بی این اے) نے بعد ازاں اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ہلاک ہونے والے افراد پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے اہلکار تھے۔
ایران میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’اسلامی جمہوریہ ایران کا سفارتخانہ ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں 8 پاکستانی شہریوں کے خلاف ہونے والے غیر انسانی اور بزدلانہ مسلح واقعے کی شدید مذمت کرتا ہے۔‘
رپورٹس کے مطابق قانونی کارروائی کے بعد لاشیں پاکستان بھجوانے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی مذمت
ہفتہ کی رات اپنے دفتر سے جاری ایک بیان میں وزیرِاعظم شہباز شریف نے زور دیا کہ تمام علاقائی ممالک کو مل کر ایک دہشت گردی کے خلاف حکمتِ عملی مرتب کرنی چاہیے اور اس پر عملدرآمد یقینی بنانا چاہیے تاکہ پرتشدد انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔
پاکستان کے صوبے بلوچستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے صورتحال کشیدہ ہے۔ بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں، جیسے بلوچستان نیشنل آرمی (بی این اے) اور بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے)، مرکزی حکومت پر الزام لگاتی ہیں کہ وہ سونے اور تانبے جیسے قدرتی وسائل کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کررہے ہیں اور مقامی آبادی کو اس فائدے سے محروم رکھا جارہا ہے۔
پاکستان نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت مختلف ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے بلوچ عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے پُرعزم ہے۔
پاکستان کے ہزاروں شہری، خاص طور پر معاشی طور پر پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد، روزگار کی تلاش میں ایران کا رخ کرتے ہیں جہاں وہ گاڑیوں کی مرمت، تعمیرات اور زراعت جیسے شعبوں میں کام کرتے ہیں۔
گزشتہ سال جنوری میں بھی ایران کے شہر سراوان میں ایک حملے میں نو پاکستانی مزدور ہلاک اور تین شدید زخمی ہو گئے تھے۔ اس واقعے کے متاثرین بھی ایک ورکشاپ میں گاڑیاں ٹھیک کرنے کا کام کرتے تھے۔
یہ قتل ایسے وقت میں ہوئے جب پاکستان اور ایران باہمی میزائل اور ڈرون حملوں کے بعد سفارتی تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔
دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان ایک دشوار گزار اور غیر محفوظ سرحد موجود ہے، اور دونوں اکثر ایک دوسرے پر علاقے سے عسکریت پسندی کے خاتمے میں ناکامی کا الزام لگاتے ہیں۔