
دھماکے کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی، مگر اس حملے کے پیچھے تحریک طالبان پاکستان کے ملوث ہونے کا شبہ ہے۔ ایسی امن کمیٹیاں عموماً مقامی قبائلی لوگوں پر مشتمل ہوتی ہیں جو کھل کر طالبان گروپ کی مخالفت کرتے ہیں۔
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع وانا دھماکے کے نتیجے میں سات افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق دھماکے میں حکومت کی حمایت یافتہ امن کمیٹی کے دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ پولیس کے مطابق ریسکیو ٹیمیں ملبے تلے دبے ہوئے افراد کو نکالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ایسی کمیٹیاں عموماً مقامی قبائلی رہنماؤں پر مشتمل ہوتی ہیں جو پاکستانی طالبان کے شدت پسندوں (جو تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی کے نام سے مشہور ہیں) کے خلاف عوامی طور پر مخالفت کرتی ہیں۔ ٹی ٹی پی وہ گروہ ہے جس نے پاکستان میں ہونے والے کچھ حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
اگرچہ اس تازہ حملے کی ذمہ داری کسی گروہ نے نہیں قبول کی، تاہم شبہ ہے کہ ٹی ٹی پی اس کے پیچھے ہو سکتی ہے۔
پولیس عہدیدار نے عرب نیوز کو بتایا کہ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا یہ خودکش حملہ تھا یا دھماکہ ریموٹ کنٹرول ڈیوائس سے کیا گیا تھا۔
قبائلی بزرگ عالمیر خان وزیر نے کہا کہ امن کمیٹی کے دو کمانڈرز، رحمان اور تحصیل وزیر، کی حالت تشویشناک ہے۔ انہیں تشویشناک حالت میں ضلعی ہیڈکوارٹر اسپتال لے جایا گیا۔
یہ دھماکہ اس وقت ہوا جب پاکستان کی فوج نے کہا کہ انہوں نے ساوٴتھ وزیرستان ضلع میں گزشتہ تین دنوں میں متعدد مسلح آپریشنز کے دوران 71 شدت پسندوں کو ہلاک کیا ہے۔
پاکستان نے افغانستان کی طالبان حکومت پر ٹی ٹی پی کے شدت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کابل شدت پسند گروپوں کے خلاف اقدامات نہیں لیتے تو وہ سرحد پار کارروائی کریں گے۔ افغانستان نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے اپنے سکیورٹی چیلنجز کو خود حل کرے، یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے۔