
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین جنگ میں تین دن کے لیے سیز فائر کا اعلان کردیا۔
بی بی سی یوکے اور الجزیرہ کے مطابق روس کا کہنا ہے کہ یہ جنگ بندی 8 مئی کی صبح سے 11 مئی تک جاری رہے گی، جو دوسری عالمی جنگ کے اختتام کی یاد میں ہونے والی فتح کی تقریبات سے ہم آہنگ ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ یہ جنگ بندی دوسری عالمی جنگ کے اختتام کی یاد میں ہونے والی فتح کی تقریبات کو پرامن طریقے سے منانے کے لیے کی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ آٹھ مئی کو نازی جرمنی نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس سے یورپ میں دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ ہوا تھا۔
ایک بیان میں کہا گیا کہ پوتن نے ’انسانی بنیادوں پر‘ جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔
تاہم یوکرین نے ابھی تک اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
بیان میں یہ بھی کہا کہ ’روس کا ماننا ہے کہ یوکرین کو بھی اسے فالو کرنا چاہیے۔ اگر یوکرینی فریق کی طرف سے جنگ بندی کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو روسی فوج مناسب اور مؤثر جواب دے گی۔‘
’روس ایک بار پھر یہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ یوکرین کے بحران کو حل کرنے کے لیے امن مذاکرات کے لیے تیار ہے اور اس میں کوئی شرط نہیں رکھی جا رہی‘۔
کریملن نے ایسٹر کے دوران بھی 30 گھنٹے کی جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، تاہم دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر سینکڑوں خلاف ورزیوں کا الزام لگایا تھا۔
یوکرین میں 20 سے زائد بار جنگ بندی کی کوشش کی گئی ہے، جن میں سے تمام ناکام ہو گئیں اور بعض تو مؤثر ہونے کے چند منٹوں بعد ہی ختم ہو گئیں۔
ایسٹر کے موقع پر سب سے حالیہ جنگ بندی بہت محدود دائرے میں تھی اور لڑائی میں معمولی کمی آئی تھی، جس میں دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔
روس کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان ایسے وقت میں آیا جب امریکہ نے آنے والے دنوں کو روس اور یوکرین کے درمیان امن مذاکرات کے لیے بہت اہم قرار دیا ہے۔
واشنگٹن دونوں فریقوں کے درمیان معاہدہ کرانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے یہ دھمکی دی ہے کہ اگر مذاکرات میں پیش رفت نہ ہوئی تو وہ پیچھے ہٹ جائیں گے۔
پوتن یہ تاثر پیدا کرنے کے خواہاں ہیں کہ روس امن کے حصول کے لیے سنجیدہ ہے اور وہ یہ پیغام ٹرمپ تک پہنچانا چاہتے ہیں کیونکہ یوکرین نے واشنگٹن کی طرف سے پیش کردہ 30 دن کی طویل جنگ بندی کی تجویز قبول کر لی ہے۔
روس نے 24 فروری 2022 کو یوکرین پر حملہ کیا تھا اور اِس وقت وہ یوکرین کے تقریباً 20 فیصد علاقے پر قابض ہے، جس میں 2014 میں ماسکو کے زیر قبضہ جنوبی کریمیا کا جزیرہ بھی شامل ہے۔