
سیلاب کی وجہ سے دیہاتوں سے شہروں تک خوراک لانا مشکل ہوگیا، جس کی وجہ سے گندم اور آٹے جیسی بنیادی چیزوں کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ جس سے کھانے پینے کی ضروری چیزیں مجموعی طورمہنگی ہونے کا خدشہ ہے۔
جے ایس گلوبل کا کہنا ہے کہ اگر حالات بہت خراب ہوئے تو مہنگائی کی شرح 8 فیصد تک جا سکتی ہے۔
بروکریج کا کہنا ہے کہ پیاز، ٹماٹر اور مرچ جیسی اشیائے خورونوش کم ہوگئی ہیں۔ مون سون بارشوں کے باعث ٹماٹر کی قیمتیں پہلے ہی بڑھنا شروع ہو گئی ہیں اور مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
کھانے پینے کی اشیا کی کمی یا سپلائی میں کسی بھی رکاوٹ کی وجہ سے مہنگائی جے ایس گلوبل کے بیس کیس تخمینے (یعنی عام حالات کے اندازے) 6.5 فیصد سے زیادہ جا سکتی ہے، جو مالی سال 26-2025 کے لیے لگایا گیا ہے۔
ستمبر میں ہفتہ وار مہنگائی کے اعداد و شمار زیادہ رہے ہیں، اسی لیے اندازہ ہے کہ ستمبر میں مجموعی طور پر مہنگائی تقریباً 5 فیصد جاسکتی ہے۔
آنے والے مالی سال میں مہنگائی کتنی ہوگی، یہ مختلف حالات پر منحصر ہے: اگر حالات نارمل رہے تو مہنگائی 6.5 فیصد کے قریب ہوگی۔ اگر حالات کچھ سخت ہوئے تو یہ 7.7 فیصد تک جا سکتی ہے۔ اگر کھانے پینے کی چیزیں مسلسل مہنگی رہیں تو مہنگائی 8.2 فیصد تک پہنچ سکتی ہے اور اگر 2023 جیسے خراب حالات دوبارہ پیدا ہوئے تو مہنگائی سب سے زیادہ بڑھ کر 9.5 فیصد تک ہو سکتی ہے۔
زرعی شعبے پر سیلاب کا اثر
جون، جولائی اور اگست کے دوران مون سون کی بارشیں معمول سے زیادہ ہوئیں، بار بار بادل پھٹنے کے واقعات، گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے، جھیلوں کے پھٹنے کے خطرات اور انڈیا سے پانی چھوڑنے کی وجہ سے سیلاب نے مشرقی پنجاب کے کم از کم 23 اضلاع شدید متاثر ہوئے ہیں۔
اگرچہ اس سال کی بارشوں نے 2022 کے تباہ کن سیلاب کی یاد دلا دی ہے، لیکن محکمہ موسمیات پاکستان کے مطابق بارشیں 2022 کے مقابلے میں کم از کم 33 فیصد کم ہوئیں۔ اس کے باوجود فصلوں، مویشیوں اور ٹیکسٹائل کے شعبے کو پہنچنے والا نقصان ایک بڑا خطرہ ہے کیونکہ یہ تینوں شعبے مجموعی سی پی آئی کا تقریباً 30 فیصد حصہ ہیں۔
جے ایس گلوبل کا اندازہ ہے کہ اگر کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں زیادہ رہیں تو مہنگائی مالی سال 2026 کے لیے لگائے گئے 6.5 فیصد کے اندازے سے بڑھ کر 7.5 سے 8 فیصد تک جا سکتی ہے۔
کپاس کا نقصان
کپاس، جو پہلے ہی طویل عرصے سے کمی کا شکار ہے، اس بار شدید نقصان پہنچا۔ پنجاب کی 20 سے 30 فیصد کپاس کی فصل سیلاب کی نذر ہو گئی۔ بہاول نگر، جو ملک کا دوسرا سب سے بڑا کپاس پیدا کرنے والا ضلع ہے اور قومی پیداوار میں 12 سے 15 فیصد حصہ ڈالتا ہے، وہاں کپاس کی فصل کو نقصان 40 فیصد تک ہوا ہے۔
حکومت نے کپاس کی پیداوار کا ہدف 1 کروڑ 18 لاکھ گانٹھیں رکھا تھا، جبکہ اس سال صرف 70 لاکھ گانٹھیں حاصل ہو سکیں۔ پاکستان عام طور پر ملکی ضرورت (1 کروڑ 20 سے 1 کروڑ 30 لاکھ گانٹھیں) پوری کرنے کے لیے ہر سال 30 سے 40 لاکھ گانٹھیں درآمد کرتا ہے۔ مالی سال 2025 میں پاکستان نے 40 لاکھ گانٹھیں درآمد کیں، جس پر 1.2 ارب ڈالر لاگت آئی۔ مزید نقصان کی صورت میں ہر 10 لاکھ گانٹھوں کی کمی درآمدی بل میں 30 کروڑ ڈالر کا اضافہ کر سکتی ہے۔
چاول کی فصل کو نقصان
چاول کی فصل کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ پاکستان بزنس کونسل کے مطابق وسطی اور جنوبی پنجاب کی 60 فیصد چاول کی فصل تباہ ہو گئی ہے۔ پاکستان ہر سال چاول کی برآمدات سے تقریباً 3.5 ارب ڈالر کماتا ہے، لیکن اگر پیداوار میں 10 لاکھ ٹن کی کمی ہو تو برآمدات میں 55 سے 60 کروڑ ڈالر تک کی کمی آ سکتی ہے۔
گزشتہ دو سالوں میں چاول کی کاشت کا رقبہ 30 فیصد بڑھا تھا، جس کے باعث یہ نقصان برآمدات اور مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) دونوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔
گندم
اگر سیلابی پانی کو اترنے میں کئی ماہ لگے تو گندم کی بوائی تاخیر کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس سے ایک طرف کسانوں کا پہلے سے جاری رجحان، جو کھانے کے تیل والی فصلوں کی طرف منتقل ہو رہا ہے، مزید بڑھ سکتا ہے، اور دوسری طرف گندم کی پیداوار میں کمی کا خطرہ ہے۔
اگر گندم کی 15 فیصد طلب درآمد کے ذریعے پوری کرنا پڑی تو درآمدی بل 1.3 ارب ڈالر تک جا سکتا ہے۔

مویشیوں سے متعلق خدشات
سیلاب میں اب تک 6500 سے زائد مویشی ہلاک ہو چکے ہیں، جو 2022 میں مرنے والے 13 لاکھ مویشیوں کے مقابلے میں کہیں کم ہیں، لیکن اس کے باوجود ملک میں دودھ، گوشت اور مرغی کی کمی کا امکان ہے۔ ماہرین نے زندہ بچ جانے والے مویشیوں میں بیماریوں کے پھیلنے کے خدشات پر بھی تشویش ظاہر کی ہے۔