
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج (منگل کو) کئی مسلم ممالک کے رہنماوٴں اور اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کریں گے تاکہ غزہ جنگ پر بات کی جا سکے اور جنگ کے بعد وہاں کے انتظامات کے لیے ایک تجویز پیش کی جا سکے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کیرولائن لیوٹ نے کہا کہ اس ملاقات میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، مصر، اردن، ترکیہ، انڈونیشیا اور پاکستان کے نمائندے شامل ہوں گے۔ یہ کثیرالجہتی اجلاس نیویارک میں ٹرمپ کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دورے کے دوران منعقد ہوگا۔
باخبر ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ملاقات میں غزہ مرکزی موضوع ہوگا۔
حماس کے بغیر حکومت بنانے کا منصوبہ
امریکی ویب سائٹ کے مطابق ٹرمپ جنگ ختم کرنے، ہاسٹیجز کی رہائی اور اسرائیل کے غزہ سے انخلا کے لیے ایک فریم ورک تجویز کرنے والے ہیں۔ اس منصوبے میں جنگ کے بعد غزہ کی حکمرانی حماس کے بغیر کرنے کا تصور شامل ہے۔
رپورٹس کے مطابق واشنگٹن مبینہ طور پر عرب اور مسلم اکثریتی ممالک پر زور دیں گے کہ وہ غزہ کو مستحکم کرنے کے لیے فوجی بھیجیں تاکہ اسرائیل وہاں سے انخلا کر سکے۔ امریکا کو امید ہے کہ یہی ممالک تعمیر نو اور عبوری انتظامات کے لیے مالی تعاون بھی فراہم کریں گے۔
ٹرمپ منگل کو بعد ازاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب بھی کریں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا بدلتا مؤقف
ٹرمپ نے 2025 کے آغاز میں اسرائیل اور حماس کے درمیان دو ماہ کی جنگ بندی کروائی تھی، لیکن یہ جنگ بندی 18 مارچ کو ختم ہوگئی جب اسرائیلی فضائی حملوں میں ایک ہی دن میں 400 فلسطینی مارے گئے۔
فروری میں ٹرمپ نے ایک متنازعہ منصوبہ پیش کیا تھا جس کے تحت امریکا غزہ پر قبضہ کرے گا اور فلسطینیوں کی مستقل طور پر غزہ سے نکال دیا جائے گا۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس منصوبے کو نسلی تطہیر قرار دے کر مسترد کر دیا، لیکن ٹرمپ نے اس کا ترقیاتی منصوبہ کہہ کر دفاع کیا۔
اگرچہ ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جنگ کو جلد ختم کریں گے، لیکن صدارت کے آٹھ مہینے گزرنے کے باوجود کوئی حل سامنے نہیں آیا۔ حالیہ دنوں میں غزہ میں بھوکے اور کمزور بچوں و خاندانوں کی تصاویر نے واشنگٹن پر دباؤ مزید بڑھا دیا ہے۔