
نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ ’میرا آپ کے لیے پیغام بھی ہے کہ یہ کبھی نہیں ہوگا۔ فلسطینی ریاست دریائے اردن کے مغرب میں نہیں بنے گی۔‘
برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور پرتگال نے بالآخر فلسطین کو ریاست تسلیم کر لیا ہے۔ ان چاروں ملکوں نے یہ اہم اعلان اتوار کو کیا جس کا مقصد دو ریاستی حل کو فروغ دینا تھا۔ اسرائیل نے اس اقدام پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
یہ چاروں ملک جنہیں اسرائیل کا اتحادی سمجھا جاتا ہے، اب ان 140 سے زیادہ ملکوں کی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں جو فلسطینی عوام کی آزاد وطن کے قیام کی خواہش کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ اعلان ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب غزہ جنگ کے معاملے پر مایوسی اور اسرائیل کے خلاف تنقید بڑھ رہی ہے۔
برطانیہ کی جانب سے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنا بہت اہم ہے۔ کیوں کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اسرائیل کے قیام میں برطانیہ کا بڑا کردار رہا ہے۔
برطانوی وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر نے فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’آج ہم فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی امن کی امید اور دو ریاستی حل کو زندہ کر رہے ہیں۔ برطانیہ آج باضابطہ طور پر فلسطین کو ریاست تسلیم کرتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’غزہ میں انسانوں کا پیدا کردہ بحران نئی گہرائیوں تک پہنچ رہا ہے۔ اسرائیلی حکومت کی غزہ پر بے دریغ اور بڑھتی ہوئی بمباری، بھوک اور تباہی ناقابلِ برداشت ہیں۔
کینیڈا کے وزیرِ اعظم مارک کارنی کا کہنا تھا کہ ’یہ فیصلہ ان لوگوں کو طاقت دے گا جو پرامن بقائے باہمی اور حماس کے خاتمے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ کسی طور دہشت گردی کو جواز نہیں دیتا اور نہ ہی اس کا کوئی انعام ہے۔
‘پرتگال کے وزیرِ خارجہ پاؤلو رنگل نے اسے پرتگال کی خارجہ پالیسی کا ’بنیادی حصہ‘ قرار دیا اور کہا کہ ’دو ریاستی حل ہی ایک منصفانہ اور پائیدار امن کی واحد راہ ہے۔ غزہ میں فوری جنگ بندی ضروری ہے۔‘
اسرائیل کے قریبی اتحادی امریکہ نے اپنے مغربی اتحادیوں کے اس فیصلے پر فوری طور پر تو کوئی ردعمل نہیں دیا۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے خلاف ہیں۔
فرانس اور کچھ دیگر ملکوں نے بھی فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کر رکھا ہے اور توقع ہے کہ آنے والے چند گھنٹوں میں بیلجیئم، فرانس، سان مارینو، لگزمبرگ، مالٹا اور اندورا بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیں گے جب کہ فن لینڈ اور نیوزی لینڈ کی حکومتوں کی جانب سے بھی اسی طرح کے اشارے ملے ہیں۔
’فلسطینی ریاست نہیں بنے گی‘
اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے فلسطین کو تسلیم کرنے کے اقدام کی مذمت کی ہے۔
انہوں نے کہا ’میرا سات اکتوبر کے حملوں کے بعد فلسطین کو تسلیم کرنے والے رہنماؤں کے لیے واضح پیغام ہے کہ آپ دہشت گردی کو انعام دے رہے ہیں۔‘
نیتن یاہو کا مزید کہنا تھا کہ ’میرا آپ کے لیے ایک اور پیغام بھی ہے کہ یہ کبھی نہیں ہوگا۔ فلسطینی ریاست دریائے اردن کے مغرب میں نہیں بنے گی۔‘
اسرائیلی وزیرِ سلامتی اتمار بن گویر نے کہا ہے کہ وہ کابینہ میں تجویز دیں گے کہ مغربی کنارے میں اسرائیلی خودمختاری نافذ کی جائے جو 1967 کی جنگ میں اس علاقے پر قبضے کے بعد اسے مکمل طور پر اسرائیل میں ضم کرنے کے مترادف ہوگا۔
اسرائیل کے سابق وزیر دفاع یواو گیلانٹ نے بھی کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کبھی نہیں بنے گی۔ انہوں نے برطانیہ کو مشورہ دیا کہ وہ اسرائیل کے بجائے اپنے ملک میں توجہ دے۔
فلسطینیوں کا خیر مقدم
حماس نے مغربی ملکوں کے فلسطین کو تسلیم کرنے کے اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ غزہ میں جنگ ختم کرنے اور اسرائیل کو مغربی کنارے کے علاقوں پر قبضہ کرنے سے روکنے کے لیے عملی اقدامات بھی کرنے چاہئیں۔
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے کہا کہ یہ فیصلہ ’فلسطین اور اسرائیل کو تحفظ اور امن کے ماحول میں اچھے ہمسایوں کی طرح ساتھ رہنے کی راہ ہموار کرے گا۔‘
اسٹارمر نے محمود عباس کو خط لکھ کر برطانیہ کے فیصلے کی تصدیق کی جس میں یہ بھی یاد دلایا کہ لندن نے 1917 میں یہودیوں کے لیے وطن کی حمایت کی تھی لیکن ساتھ ہی غیر یہودی برادریوں کے حقوق کے تحفظ کا وعدہ بھی کیا تھا۔
واضح رہے کہ مغربی ملکوں کی حکومتوں کو اپنے عوام کی طرف سے دباؤ کا بھی سامنا ہے۔ ان کے عوام میں اسرائیل کے خلاف غصہ بڑھ رہا ہے اور وہ اپنی حکومتوں سے اس کے غزہ میں حملوں اور وہاں بڑھتی ہلاکتوں کے ردعمل میں اسرائیل کے خلاف اقدامات کرنے کے مطالبات کر رہے ہیں۔