
یہ حادثہ بحری تاریخ میں ایک افسانوی کہانی سے کم نہیں۔ ایس ایس سینٹرل امریکہ کو ’سونے کا جہاز‘ بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ یہ اپنے ساتھ ہزاروں کلو سونا اور ایک المناک کہانی لے کر سمندر کی گہرائیوں میں دفن ہو گیا تھا۔
تحریر: عدیل احمد (صحافی، ینی شفق)
آج سے 168 سال پہلے یعنی 12 ستمبر 1857 کو ایس ایس سینٹرل امریکہ نامی ایک بحری جہاز سمندر میں غرق ہوا تھا۔ اس میں 400 سے زائد افراد مارے گئے جس کی وجہ سے اسے امریکہ کی بحری تاریخ کے چند ہلاکت خیز حادثوں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔

’سونے کا جہاز‘
یہ ایک 280 فٹ لمبا لکڑی کا بنا ہوا جہاز تھا جو بھاپ کے انجن کی طاقت سے چلتا تھا۔ اس جہاز کے دونوں طرف دو بڑے لوہے کے پیڈل ویلز لگے ہوئے تھے۔ یہ جہاز پاناما سے امریکہ کے مشرقی ساحلوں کے روٹ پر چلتا تھا اور اس راستے کے درمیان نقل و حمل کا ایک اہم ذریعہ تھا۔

یہ وہی دور تھا جسے کیلی فورنیا گولڈ رش کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ اس دور میں کیلی فورنیا میں سونے کے بڑے ذخائر دریافت ہو چکے تھے اور لوگ بڑی تعداد میں کیلی فورنیا کا سفر کرتے تھے۔ کیلی فورنیا میں 1848 میں سونے کے ذخائر دریافت ہوئے جس کے بعد دنیا بھر سے لاکھوں لوگ یہاں آئے تھے۔

اس جہاز میں اتنا سونا کیوں تھا؟
سن 1857 میں امریکہ ایک بدترین معاشی بحران سے گزر رہا تھا جس کی وجہ سے نیویارک کے بہت سے بینکوں کو دیوالیہ ہونے کا خطرہ لاحق ہو گیا۔ نیویارک کے بینکوں نے اپنے ذخائر مضبوط کرنے کے لیے سان فرانسسکو ٹکسال سے کیلی فورنیا کے سونے کی ایک بڑی کھیپ منگوائی تھی اور یہ سونا ایس ایس سینٹرل امریکہ پر موجود تھا۔
اس جہاز پر موجود سونے کے بارے میں مختلف تخمینے لگائے جاتے ہیں جن کے مطابق سونے کا وزن 10 سے 21 ٹن تک تھا۔
سفر جو آخری ثابت ہوا
مسافروں نے اپنا سفر 20 اگست 1857 کو سان فرانسسکو سے ایک دوسرے جہاز ’سونورا‘ پر شروع کیا تھا جس سے یہ مسافر اور سامان پاناما پہنچے اور ٹرین کے ذریعے پاناما میں سفر کر کے بحرِ اوقیانوس کے ساحل پر اترے جہاں سے وہ ایس ایس سینٹرل امریکہ پر سوار ہوئے۔

جہاز جب جنوبی کیرولائنا کے ساحل کے قریب پہنچا تو ایک شدید سمندری طوفان کی زد میں آ گیا۔ جس سے جہاز کے بادبان پھٹ گئے اور اس کے اگلے حصے میں پانی بھرنے لگا۔ 11 ستمبر کو مین بوائلرز کی آگ بجھ گئی اور جہاز کے انجن ناکارہ ہو گئے۔ عملے اور مسافروں نے پوری رات جہاز سے پانی نکالنے کی بھرپور کوشش کی لیکن انہیں اندازہ ہو چکا تھا کہ اب شاید وہ اپنی منزل پر نہ پہنچ سکیں۔
بالآخر 12 ستمبر کو انہوں نے عورتوں اور بچوں کو لائف بوٹس میں بٹھا کر سمندر میں اتار دیا گیا اور 12 ستمبر کی رات آٹھ بجے کے قریب یہ بدقسمت جہاز بحرِ اوقیانوس میں 7200 فٹ کی گہرائی میں ڈوب گیا۔ اس حادثے میں 400 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ تقریباً 580 مسافروں میں سے 150 کے قریب زندہ بچے جنہیں کئی کئی گھنٹوں بعد دوسرے جہازوں نے ریسکیو کیا۔
ایس ایس سینٹرل امریکہ کے ڈوبنے کو امریکی تاریخ میں ایک اہم واقعہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس نے 1857 کے مالیاتی بحران میں ایک بڑا کردار ادا کیا۔ ہم نے آپ کو اوپر بتایا تھا کہ ان دنوں امریکہ شدید معاشی بحران کی لپیٹ میں تھا جو اتنی بڑی مقدار میں سونا گم ہونے کے بعد مزید شدید ہو گیا۔
خزانے کی تلاش
اس حادثے کے بعد کئی برسوں تک امریکی بحریہ، نجی کمپنیاں اور مقامی ماہی گیر جہاز کو تلاش کرنے کی کوششیں کرتے رہے جس کے لیے درجنوں مہمات ہوئیں۔ لیکن کوئی کامیابی نہیں ملی اور کئی حادثات بھی پیش آئے۔
بالآخر حادثے کے 130 سال سے زیادہ عرصے کے بعد ایک بحری انجینئر ٹومی تھامسن نے اس خزانے کو تلاش کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔ انہوں نے سائنس دانوں اور پیشہ ور غوطہ خوروں کی ایک ٹیم کے ساتھ 1988 میں ایک مہم کا آغاز کیا جس کے اخراجات کے لیے درجنوں سرمایہ کاروں نے پیسہ خرچ کیا۔ 11 ستمبر 1988 کو ان کی ٹیم نے ایس ایس سینٹرل امریکہ کے ملبے کو ساحل سے 250 کلومیٹر دور سمندر میں دو ہزار میٹر کی گہرائی میں تلاش کر لیا۔

جہاز کی تلاش کے بعد کیا تنازعات ہوئے؟
ریاست، انشورنس کمپنیوں اور ٹومی تھامسن کے درمیان ایک قانونی جنگ چھڑ گئی۔ عدالتوں نے ٹومی تھامسن اور ان کے سرمایہ کاروں کے حق میں فیصلہ سنایا۔

تھامسن اس نے اپنے ساتھیوں کو ادائیگی کی لیکن یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ خزانے کے لاپتا 500 سونے کے ٹکڑے کہاں چھپائے گئے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ سکے انہوں نے ایک ٹرسٹ کو دے دیے تھے لیکن اس کی تفصیلات فراہم نہیں کیں جس کی وجہ سے انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ اور وہ فروری 2025کی آخری اطلاعات تک وہ جیل میں ہی تھے۔
ٹومی تھامسن کی ٹیم نے 1988 اور 1991 کے درمیان جو سونا ڈھونڈا وہ جہاز کے کل خزانے کا صرف تقریباً پانچ فیصد حصہ تھا۔

اس برآمد شدہ سونے کا بڑا حصہ کیلیفورنیا گولڈ مارکیٹنگ گروپ کو فروخت کیا گیا جو اسے کلیکٹرز کو بیچتا ہے۔ جہاز سے برآمد ہونے والا یہ سونا آج بھی نیلامیوں میں بہت زیادہ قیمت پر فروخت ہوتا ہے۔